سپریم کورٹ کے دو سینئر جج، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ضابطہ اخلاق میں کی گئی حالیہ ترامیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ تبدیلیاں عدلیہ کی آزادی کو محدود کر دیں گی اور ادارے پر اندرونی و بیرونی دباؤ کے دروازے کھول دیں گی۔
18 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے اجلاس میں ضابطہ اخلاق میں متعدد ترامیم کی منظوری دی گئی تھی، جن کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو سیاسی نوعیت کے معاملات یا تنازعات پر عوامی سطح پر گفتگو یا میڈیا سے رابطہ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
مزید یہ کہ ججوں کی سماجی و سفارتی سرگرمیوں پر بھی نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ایس جے سی کے چیئرمین اور اراکین کو ایک خط میں بتایا کہ انہوں نے 17 اکتوبر کو اپنی تحریری آراء جمع کروائی تھیں جن میں اس پورے عمل کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔
ان کے مطابق نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی (NJPMC) کا اس معاملے پر غور کرنا غیر قانونی تھا کیونکہ ضابطہ اخلاق صرف ایس جے سی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
دونوں ججوں نے خبردار کیا کہ ان ترامیم سے عدلیہ کا آزاد اور کھلا ماحول متاثر ہوگا اور اسے ایک ’’بند اور تابع‘‘ ادارے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ان ججوں نے خاص طور پر آرٹیکل 5 میں کی گئی ترمیم پر اعتراض کیا جس کے تحت ججوں کو کسی بھی متنازع یا سیاسی معاملے پر اظہارِ رائے، تقریر یا تحریر سے روک دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’عوامی تنازع‘‘ یا ’’سیاسی سوال‘‘ جیسے الفاظ کی وضاحت نہیں کی گئی، جو تقریباً ہر آئینی مسئلے کو اس کے دائرے میں لے سکتے ہیں۔
انہوں نے نئے آرٹیکل 19 پر بھی اعتراض کیا جس میں ججوں کو کسی دباؤ یا اثر و رسوخ کی صورت میں اپنے چیف جسٹس کو اطلاع دینے کا پابند کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق موجودہ سیاسی حالات میں ایسا نظام آزادانہ سوچ رکھنے والے ججوں کو دبانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
دونوں ججوں نے کہا کہ سماجی و سفارتی تقریبات میں شرکت پر پابندی عدلیہ اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھائے گی، جبکہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کو بدعنوانی قرار دینا غیر مناسب ہے کیونکہ ایسے پروگرام عدالتی علم میں اضافہ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان ترامیم کے نتیجے میں جج خود سنسرشپ کا شکار ہو جائیں گے اور آئینی امور پر بھی خاموشی اختیار کریں گے، جس سے عدالتی سوچ اور آئینی قانون کی ترقی رک جائے گی۔
ججوں نے ایس جے سی کے اجلاس کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کی سینیارٹی اور 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق مقدمات ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں، اس لیے ایسے وقت میں ضابطہ اخلاق میں ترمیم آئینی طور پر درست نہیں۔
دونوں ججوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ ادارہ شفاف، آزاد اور جرات مند رہے — نہ کہ خاموشی اور دباؤ کا شکار۔


