پنجاب کی وزیر اطلاعات اعظمیٰ بخاری نے انکشاف کیا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی اعلیٰ قیادت حالیہ پرتشدد احتجاج کے بعد زیر زمین ہوچکی ہے اور صوبہ پنجاب چھوڑ چکی ہے۔
جیو پاکستان پر گفتگو کرتے ہوئے اعظمیٰ بخاری نے کہا کہ دستیاب معلومات کے مطابق پارٹی کے سینئر رہنما اس وقت پنجاب سے باہر ہیں اور گرفتاری سے بچنے میں ماہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور کارروائی کر رہے ہیں، اور جلد اچھی خبر سننے کو ملے گی۔”
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ٹی ایل پی کو سیاسی جماعت کہنا غلط ہوگا۔ "یہ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک ذہنیت ہے جسے معاشرے کو مل کر ختم کرنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا منصوبہ بن چکا تھا جس کا مقصد دولت اکٹھی کرنا تھا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذہب کے نام پر ہونے والے لین دین سے سود کمایا جا رہا تھا۔ "جب بھی ٹی ایل پی سڑکوں پر آتی ہے تو تشدد اور بدامنی پھیلانے کی کوشش کرتی ہے،” انہوں نے کہا۔
اعظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ "یہ گروہ ریاست پر دباؤ ڈالنے کے لیے بار بار ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے، مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کیا جائے۔”
انہوں نے بتایا کہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مذاکرات میں غزہ یا فلسطین سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ "ان کے مطالبات صرف ضبط شدہ قیمتی اشیاء کی واپسی اور احتجاجی اخراجات کے معاوضے تک محدود تھے۔”
گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پنجاب حکومت کی سفارش پر تحریک لبیک پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی عائد کر دی گئی۔
وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کردہ سمری میں بتایا گیا کہ پارٹی کی کارروائیوں سے ملک کے مختلف حصوں میں بدامنی پھیلی۔
یہ بھی کہا گیا کہ سابق حکومت نے 2021 میں ٹی ایل پی پر پابندی عائد کی تھی، جو چھ ماہ بعد اس شرط پر ہٹا لی گئی تھی کہ تنظیم دوبارہ تشدد میں ملوث نہیں ہوگی۔ تاہم، تازہ پابندی اس وعدے کی خلاف ورزی کے بعد لگائی گئی ہے۔


