وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے ہفتے کے روز دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت پر صوبے کے 550 ارب روپے واجب الادا ہیں اور نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے۔ وہ خیبر ضلع میں ایک جرگے سے خطاب کر رہے تھے جہاں انہوں نے کہا کہ صوبے نے ہمیشہ قومی فیصلوں کا بوجھ اٹھایا جن میں صوبے کی رائے شامل نہیں کی گئی۔
سہیل آفریدی نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک غیر ملکی جنگ میں ’’بغیر ہماری مرضی‘‘ شامل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں اور فوجی کارروائیوں نے قبائلی علاقوں کو تباہ کر دیا، ہمارے گھر، بازار اور مساجد مٹ گئے اور ہمیں قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ صوبے کے قبائلی اضلاع میں کسی نئے فوجی آپریشن کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ’’ہم دوبارہ قربانی کا بکرا نہیں بنیں گے‘‘، انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا۔ آفریدی کے مطابق اگرچہ 2018 میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خیبر اور دیگر قبائلی علاقے عسکریت پسندی سے پاک ہو چکے ہیں، ’’مگر ایک بار پھر نئے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔‘‘
وزیراعلیٰ نے کہا کہ خیبرپختونخوا امن کے لیے ریاست کے ساتھ کھڑا ہے مگر کسی بھی بے گناہ جان کے ضیاع کو قبول نہیں کرے گا۔ ’’اگر اس بار کوئی بے گناہ مارا گیا تو جوابدہی ہوگی‘‘، انہوں نے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے سے متعلق مستقبل کے فیصلوں میں صوبائی حکومت اور منتخب نمائندوں کو شامل کیا جائے اور ’’بند کمروں میں ہونے والے فیصلے‘‘ مسترد کیے جاتے ہیں۔
اس سے قبل وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس ہوا جس کی صدارت چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کی۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سہیل آفریدی، صوبائی صدر جنید اکبر، اسد قیصر اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔ اجلاس میں صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک امن جرگہ بلایا جائے جس میں سابق وزرائے اعلیٰ، گورنرز، علمائے کرام، سول سوسائٹی، وکلا اور قبائلی عمائدین کو مدعو کیا جائے گا تاکہ پائیدار امن کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنائی جا سکے۔
وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اجلاس کے شرکا نے پولیس کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ صوبائی حکومت پولیس کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ آفریدی نے کہا کہ پولیس کو جدید تربیت، آلات اور وسائل فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ مہینوں کے دوران اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں، جب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے نومبر 2022 میں جنگ بندی ختم کی۔ وزیراعلیٰ آفریدی نے وفاقی حکومت کی ’’غلط پالیسیوں‘‘ کو اس دہشت گردی کے دوبارہ ابھرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
تحریک انصاف کی حکومت نئے فوجی آپریشن کی مخالف ہے کیونکہ ماضی میں ایسے اقدامات کے باعث ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔ وفاقی حکومت اگرچہ کسی بڑے آپریشن کی تردید کرتی ہے، تاہم قومی ایکشن پلان کے تحت ہدفی کارروائیاں جاری ہیں۔ کرم ضلع میں آپریشن کے خدشے کے باعث لوگ نقل مکانی شروع کر چکے ہیں جبکہ باجوڑ کی وڑ ماموند تحصیل میں بھی کارروائی کی تیاری کی جا رہی ہے۔


