پاکستان نے ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے اہم مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو واضح پیغام دیا ہے کہ اسلام آباد کسی بھی دہشت گرد گروہ کو پناہ یا تعاون دینے کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق، پاکستانی وفد نے طالبان کو بتایا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات ناگزیر ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد نے طالبان کے دلائل کو “غیر منطقی” اور “حقیقت سے دور” قرار دیا۔
طالبان کا مختلف ایجنڈا سامنے آیا
ذرائع کے مطابق پاکستان کو یقین ہے کہ طالبان ایک “مختلف ایجنڈے” پر عمل پیرا ہیں جو افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہے۔ مذاکرات میں آئندہ پیش رفت طالبان کے “مثبت اور تعمیری رویے” پر منحصر ہوگی۔
اتوار کو مذاکرات کے دوسرے دن دونوں فریقین نے افغان سرزمین سے دہشت گردی کے انسداد اور تصدیقی نظام کو مزید مؤثر بنانے پر بات چیت کی۔
ٹی ٹی پی کی منتقلی کی تجویز مسترد
سفارتی ذرائع کے مطابق، طالبان نے مذاکرات کے ابتدائی دور میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ارکان کو دیگر علاقوں میں منتقل کرنے کی تجویز دی تھی، جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کر دیا۔
اسلام آباد نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں اور بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں پر عمل کریں۔
پاکستان نے واضح کیا کہ “فتنہ الخوارج” اور “فتنہ الہندستان” جیسے دہشت گردوں کے حملے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
پاکستان کا دو ٹوک مؤقف: لچک کی کوئی گنجائش نہیں
پاکستانی وفد نے اس بات پر زور دیا کہ انسدادِ دہشت گردی کا نظام واضح، مضبوط اور مؤثر ہونا چاہیے۔ اگر پاکستان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو کسی قسم کی نرمی نہیں دکھائی جائے گی۔
پاکستان نے برادرانہ تعلقات کے فروغ کی خواہش ظاہر کی لیکن واضح کیا کہ قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ضروری اقدام اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
ترکی میں ثالثی کے تحت مذاکرات
مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی اعلیٰ عسکری، انٹیلی جنس اور وزارتِ خارجہ کے حکام نے کی، جبکہ افغان وفد کی قیادت نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب نے کی۔
دونوں وفود نے ترکی اور قطر کی ثالثی میں تجاویز کا تبادلہ کیا۔ یہ مذاکرات دوحہ میں ہونے والے پہلے دور کے بعد جاری ہیں، جس میں عارضی جنگ بندی طے پائی تھی۔
خواجہ آصف کا انتباہ: اگر بات ناکام ہوئی تو کھلا تصادم ممکن
دفاعی وزیر خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان کھلے تصادم کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان وفد کے کئی اراکین “پاکستان میں پلے بڑھے”، تاہم اب کسی کو ویزا کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ بھارت افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے، اور پاکستان اپنی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
پاکستان۔افغان تعلقات نازک موڑ پر
تجزیہ کاروں کے مطابق، استنبول میں ہونے والے مذاکرات پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ایک نازک موڑ ہیں۔ اگر بات چیت کامیاب نہ ہوئی تو خطے میں کشیدگی ایک بار پھر بڑھ سکتی ہے۔


