لاہور: لاہور کی ایک مقامی عدالت نے منگل کے روز نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے چھ افسران کو کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمے میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کر دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نعیم وٹو نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا۔
دورانِ سماعت، وکیلِ صفائی میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکلوں کو رشوت کے الزامات میں غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا، کیونکہ گرفتاری سے قبل ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی منظوری نہیں لی گئی تھی جو قانوناً لازمی ہے۔ انہوں نے عدالت سے ایف آئی اے کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی۔
ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ تفتیش مکمل کرنے اور ملزمان کو دیگر شریک ملزمان کے ساتھ آمنے سامنے کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ ناگزیر ہے۔
عدالت نے جب تفتیش کی پیش رفت اور گرفتاری کی وجوہات سے متعلق استفسار کیا تو ایف آئی اے کے نمائندے نے بتایا کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں اور حقائق تک پہنچنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
تفصیلی دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور بعد ازاں ملزمان کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔
گرفتار ہونے والوں میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری، ڈپٹی ڈائریکٹرز زوار احمد، محمد عثمان، ایاز خان (ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز اسلام آباد)، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز شعیب ریاض اور مجتبیٰ ظفر (ایف آئی اے لاہور) اور سب انسپکٹر یاسر رمضان و علی رضا شامل ہیں۔


