ویب ڈیسک: اقوام متحدہ کے ماہرِ انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں خواتین اور بچیاں ’’ہمارے دور کی صنفی برابری پر سب سے سنگین یلغار‘‘ کا سامنا کر رہی ہیں
افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے جنرل اسمبلی میں بتایا کہ طالبان نے ’’صنفی جبر کا ادارہ جاتی نظام‘‘ قائم کر لیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ طالبان کے اقتدار کو معمول کے طور پر قبول کرنے کے بجائے انسانی حقوق کی پامالی روکنے کے لیے فوری اور متحدہ اقدام کیا جائے۔
بینیٹ نے کہا کہ خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندیوں، بشمول اقوام متحدہ اور امدادی اداروں میں کام کرنے پر قدغن، نے انسانی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان کے مطابق بین الاقوامی امداد میں کمی سے افغان عوام ’’حمایت اور تحفظ کی آخری امیدوں‘‘ سے محروم ہو رہے ہیں۔
انہوں نے عوامی سزاؤں، جبری گمشدگیوں اور میڈیا و سول سوسائٹی کی آزادی میں کمی پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ طالبان کی جانب سے نسلی و مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ملک بھر میں کشیدگی بڑھا رہا ہے۔
رچرڈ بینیٹ نے خبردار کیا کہ طالبان کی سخت پالیسیاں دباؤ اور غربت میں پلنے والی نئی نسل کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا۔‘‘
انہوں نے پڑوسی اور یورپی ممالک کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی جبری واپسی کی بھی مذمت کی اور بین الاقوامی قانون کے احترام پر زور دیا۔
تاہم بینیٹ نے کہا کہ ’’افغانستان کھویا ہوا ملک نہیں‘‘ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان قیادت میں انسانی حقوق کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے۔


