وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعہ کے روز وفاقی ترجمان دانیال چوہدری کے اس متنازع بیان کی سخت مذمت کی، جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی افواج ممکنہ طور پر غزہ امن فورس کا حصہ بنیں گی اور حماس کو غیر مسلح کرنے میں کردار ادا کریں گی۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا، “اللہ معاف کرے، یہ کس قسم کا بیان دیا گیا ہے، یہ سب ہمارے ایجنڈے یا پالیسی کا حصہ نہیں۔”
خیال رہے کہ دانیال چوہدری نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں کہا تھا کہ غزہ امن فورس میں شامل پاکستان اور دیگر ممالک “انتہا پسندی اور سرحد پار حملوں کی روک تھام” کو یقینی بنائیں گے اور حماس کو غیر مسلح کرنا مشن کا حصہ ہوگا۔
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ حکومت نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور پاکستان صرف اجتماعی فیصلے کے تحت کارروائی کرے گا۔ “مجھے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں، ذاتی حیثیت میں ایسے بیانات دینا نامناسب ہے،” انہوں نے کہا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ موجودہ اسرائیلی بمباری کے دوران پاکستانی افواج کی شمولیت پیچیدہ صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ غزہ امن فورس میں پاکستانی دستوں کی شمولیت سے متعلق فیصلہ ابھی زیر غور ہے لیکن حتمی اعلان نہیں کیا گیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کا مقصد غزہ میں داخلی سلامتی، انسانی امداد اور عبوری فلسطینی حکومت کے تحت تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا ہے۔ تاہم، پاکستان کے اندر عوامی جذبات اس اقدام کو اسرائیلی مفادات سے منسلک سمجھ سکتے ہیں۔
افغان طالبان کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام پر اتفاق کیا جا رہا ہے تاکہ طویل مدتی امن یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دہشت گردوں کی آمد و رفت کی اجازت دینا “ملوث ہونے یا ساز باز” کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نجی سطح پر تسلیم کرتے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان سے حملے کرتی ہے، اور اس کی بیشتر قیادت کابل میں موجود ہے۔ “وہ ہوٹلوں میں نہیں رہ رہے، ان کے ٹھکانے طالبان نے فراہم کیے ہیں،” وزیر دفاع نے کہا۔


