اسلام آباد: دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرا بی نے جمعے کو تصدیق کی کہ کابل میں قائم افغان طالبان حکومت نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی اپنی سرزمین پر موجودگی کو تسلیم کر لیا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان نے حالیہ سرحدی جھڑپوں اور کشیدگی کے بعد جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ اتفاق استنبول میں ہونے والے پانچ روزہ مذاکرات کے اختتام پر طے پایا، جن میں ترکی اور قطر نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان نے کہا کہ افغان طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔ افغان حکام نے ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے ہیں، جس سے پاکستان کے سیکیورٹی خدشات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان گزشتہ چار برسوں سے افغان طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور “احتیاط کے ساتھ امید پر مبنی” سفارتی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
طورخم بارڈر کی بندش کے بارے میں سوال پر اندرا بی نے کہا کہ ان کے پاس کوئی تازہ اطلاع نہیں، تاہم پاکستانی تاجروں اور شہریوں سے رابطہ برقرار رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو 6 نومبر سے شروع ہونے والے اگلے مرحلے کے مذاکرات سے مثبت نتائج کی امید ہے اور ملک امن و استحکام کے لیے ثالثی کے عمل میں شامل رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے استنبول مذاکرات میں “خیر نیتی کے ساتھ” حصہ لیا، تاہم اپنے اس مؤقف پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان کسی نئی کشیدگی کا خواہاں نہیں، مگر وہ افغان طالبان سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں پر عمل کریں گے اور ٹی ٹی پی (فتنہ الخوارج) اور بلوچستان میں سرگرم گروہوں (فتنہ الہندستان) کے خلاف ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات کریں گے۔
ان کے مطابق پاکستان نے متعدد بار افغان حکومت کو ان گروہوں کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں ٹھوس معلومات فراہم کیں، مگر یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں حملوں میں اضافہ ہوا۔
ترجمان نے کہا کہ “پاکستان نے سرحدی علاقوں کو غیر مستحکم کرنے اور دہشت گردی کو فروغ دینے والی افغان اشتعال انگیزیوں کا فیصلہ کن جواب دیا” اور خبردار کیا کہ اگر ایسی کارروائیاں جاری رہیں تو پاکستان بھرپور ردعمل دے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں رہا ہے اور تمام تر خدشات کے باوجود افغانستان کی امداد اور تجارت کے فروغ کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں سی پیک منصوبے کو افغانستان تک توسیع دینے کی منظوری بھی شامل ہے۔
دریں اثنا، وزیر دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی کہ ترکی اور قطر کی ثالثی سے دونوں ممالک کے درمیان عبوری جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ “جب تک افغان سرزمین سے دہشت گردی ختم نہیں ہوتی، جنگ بندی مؤثر نہیں ہو سکتی۔”
یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب رواں ماہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپوں اور جوابی کارروائیوں کے باعث تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔


