وزارتِ توانائی نے جمعہ کے روز اعلان کیا کہ پاکستان نے 18 سال بعد پہلی بار 23 آف شور ایکسپلوریشن بلاکس کی نیلامی مکمل کرلی ہے، جو چار کنسورشیمز کو دیے گئے ہیں جن میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کا اشتراک شامل ہے۔
بیان کے مطابق، کامیاب بولی دہندگان میں آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL)، پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (PPL)، ماری پٹرولیم، اور پرائم انرجی شامل ہیں جو حب پاور کمپنی (حبکو) کی معاونت سے کام کرتی ہے۔ غیر ملکی شراکت داروں میں ترکی کی قومی آئل کمپنی TPAO، ہانگ کانگ کی یونائیٹڈ انرجی گروپ، اور فاطمہ گروپ کی فاطمہ پٹرولیم شامل ہیں۔
یہ 23 بلاکس مجموعی طور پر 53,500 مربع کلومیٹر پر محیط ہیں، جو سندھ کے انڈس اور بلوچستان کے مکران آف شور بیسنز میں واقع ہیں۔ TPAO نے PPL کے ساتھ مشترکہ معاہدے کے تحت ایک بلاک میں 25 فیصد حصہ اور آپریشنل کنٹرول حاصل کیا ہے۔
وزارتِ توانائی کے مطابق، چاروں کامیاب کنسورشیمز نے ابتدائی تین سالوں میں 8 کروڑ ڈالر مالیت کی ایکسپلوریشن سرگرمیوں کا وعدہ کیا ہے۔ اگر ڈرلنگ کامیاب رہی تو کل سرمایہ کاری 75 کروڑ سے 1 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے بتایا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے میں جیو فزیکل اور جیو لوجیکل اسٹڈیز کی جائیں گی، جن میں سیسمک ڈیٹا اکٹھا کرنا، پراسیسنگ اور تجزیہ شامل ہے تاکہ ہائیڈروکاربن کے ممکنہ ذخائر کی نشاندہی ہو سکے۔ دوسرے مرحلے میں ان علاقوں میں ڈرلنگ کی جائے گی جنہیں زیادہ امید افزا سمجھا جائے گا۔
امریکی کنسلٹنٹ فرم ڈی گولیئر اینڈ میک نالٹن کے حالیہ مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے آف شور بیسنز میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن کی دریافت ابھی باقی ہے۔
پاکستان کا آف شور زون تقریباً 3 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جو عمان، متحدہ عرب امارات اور ایران کے قریب واقع ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک صرف 18 کنویں کھودے گئے ہیں، جو مکمل اندازہ لگانے کے لیے ناکافی ہیں۔ حکومت اب بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے، خاص طور پر 2019 میں کیکرا-1 منصوبے کی ناکامی کے بعد جب ایکسن موبل نے ملک چھوڑ دیا تھا۔


