اتوار, نومبر 9, 2025
ہومتازہ ترینپی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر کا انتباہ: “آئین کے پانچ بنیادی...

پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر کا انتباہ: “آئین کے پانچ بنیادی ستونوں میں تبدیلی انتشار کو جنم دے سکتی ہے”

اسلام آباد: ایوانِ بالا میں اتوار کے روز 27ویں آئینی ترمیم پر ہونے والے غیر معمولی اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے خبردار کیا کہ 1973 کے آئین کے پانچ بنیادی ستونوں کے توازن میں تبدیلی “بڑے انتشار” کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ اجلاس ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ طلب کیا گیا تھا تاکہ مجوزہ ترمیمی بل پر بحث کی جا سکے، جسے وفاقی کابینہ نے ایک روز قبل ہی منظور کیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے اجلاس کی صدارت کی، جو علامہ اقبال کے یومِ پیدائش کے حوالے سے قرارداد کی منظوری سے شروع ہوا۔

اجلاس کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے اپنے ڈیسک پر عمران خان کی تصاویر رکھ کر احتجاج کیا۔

آئین کے پانچ ستون

اپنی تقریر میں علی ظفر نے کہا کہ 1973 کے آئین کی روح پانچ بنیادی اصولوں پر مبنی ہے: خودمختار صوبوں کے ساتھ وفاقی نظام، پارلیمنٹ کی بالادستی جو آئین کے تابع ہو، بنیادی حقوق کا تحفظ، آزاد عدلیہ، اور سویلین بالادستی۔

انہوں نے کہا، “اگر ان پانچ ستونوں کے توازن کو ذرا بھی بگاڑا گیا تو پورا آئینی ڈھانچہ ہل جائے گا اور ملک میں انتشار پیدا ہوسکتا ہے۔”

علی ظفر نے آئین کو عمارت کی بنیاد سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ “بنیاد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پوری عمارت کو گرا سکتی ہے۔” انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم زبردستی نہیں بلکہ قومی اتفاقِ رائے سے ہونی چاہئیں، “آئین کو گولیوں کے زور پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔”

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ مجوزہ ترمیم عدلیہ کی خودمختاری کو نقصان پہنچائے گی کیونکہ اس میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام، صدر کو جج تعینات کرنے کا اختیار، اور ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے 68 سال تک بڑھانے کی تجاویز شامل ہیں۔

حکومتی و اپوزیشن موقف

سینیٹر حمید خان نے ترمیم کو “آئین کی تدفین” قرار دیا جبکہ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ “یہ 1973 کے آئین کو تباہ کر دے گی۔” سینیٹر محسن عزیز نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “دو سال میں دو آئینی ترامیم کی کیا ضرورت ہے؟”

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پی ٹی آئی نے صرف عدلیہ سے متعلق پہلو اجاگر کیا اور کمیٹی اجلاسوں میں شرکت نہ کر کے اپنی رائے دینے کا موقع کھو دیا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر مسرور احسن نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاست کو مخصوص سمت میں لے جا رہی ہے جبکہ “پیپلز پارٹی نے اپنے رہنماؤں کی قربانیاں دے کر جمہوریت کو زندہ رکھا۔”

بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر دنیش کمار نے سوال اٹھایا کہ “جب کابینہ کے حجم میں اضافے کی ترمیم لائی گئی تو اقلیتوں کے نمائندے کو شامل کرنے کی شق کیوں نہیں ڈالی گئی؟ کیا غیر مسلم پاکستانی نہیں ہیں؟”

انسانی حقوق تنظیموں کے تحفظات

ادھر انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے حکومت کی “عجلت” پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “اس ترمیم پر اپوزیشن، وکلاء اور سول سوسائٹی سے مشاورت نہ کرنا حکومت کے ارادوں پر سوال اٹھاتا ہے۔”

کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے بھی مجوزہ ترمیم کو “عدلیہ اور جمہوری بالادستی کے لیے خطرہ” قرار دیا۔

ایوان بالا کا اجلاس پیر کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

متعلقہ پوسٹ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -
Google search engine

رجحان