سابق ججز اور نامور وکلا کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے آئینی ترمیم پر فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ

0
16

27ویں آئینی ترمیم کے منظوری کے مراحل طے ہونے کے ساتھ ہی سابق ججوں اور ممتاز وکلا نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مجوزہ ترمیم پر غور کے لیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس طلب کریں۔

یہ مطالبہ 9 نومبر کو لکھے گئے ایک خط میں کیا گیا، جسے سینئر وکیل فیصل صدیقی نے تحریر کیا اور اس پر سابق سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس (ر) مشیر عالم، سابق سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس (ر) ندیم اختر اور نو دیگر ممتاز وکلا نے دستخط کیے۔

خط میں کہا گیا کہ یہ پیغام “عام حالات میں نہیں بلکہ ان دنوں میں لکھا جا رہا ہے جب سپریم کورٹ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔”

خط میں 27ویں ترمیم کو “1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے بعد سے وفاقی عدالتی ڈھانچے میں سب سے بڑی اور انقلابی تبدیلی” قرار دیا گیا۔

دستخط کنندگان نے لکھا کہ “پاکستان کی تاریخ میں کسی سول یا فوجی حکومت نے کبھی سپریم کورٹ کو ماتحت عدالت بنانے یا اس کے آئینی اختیارات چھیننے کی کوشش نہیں کی، جیسا کہ اس مجوزہ ترمیم کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔”

انہوں نے چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ فل کورٹ اجلاس بلا کر اس آئینی مسودے پر غور کریں اور حکومت کو عدلیہ کی متفقہ رائے سے آگاہ کریں۔

خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی آئینی ترمیم پر اپنی رائے دے، خاص طور پر اس وقت جب یہ ترمیم براہِ راست عدالتِ عظمیٰ کے ڈھانچے، کردار اور اختیارات کو متاثر کرے۔

خط میں خبردار کیا گیا کہ اگر چیف جسٹس “غیر جانبداری یا قانون سازی میں عدم مداخلت” کے بہانے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہیں، تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ خود کو “پاکستان کے آخری چیف جسٹس کے طور پر قبول کر چکے ہیں۔”

خط میں کہا گیا کہ “اگر ایسا ہوا تو ہم یہ سمجھیں گے کہ اب آپ سپریم کورٹ کے محافظ کے طور پر اپنا کردار ختم کر چکے ہیں۔”

یہ خط عوامی اہمیت کے پیشِ نظر میڈیا کو جاری کرنے کی بھی سفارش کرتا ہے۔

اس خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک، انور منصور خان، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد شاہد زبیری، علی احمد کرد، محمد اکرم شیخ، امان اللہ کنرانی، خواجہ احمد حسین، صلاح الدین احمد اور شبنم نواز اعوان شامل ہیں۔

یہی شخصیات گزشتہ برس 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھی پیش پیش رہی تھیں۔

مجوزہ عدالتی ڈھانچہ
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد 27ویں آئینی ترمیمی بل 2025 کو سینیٹ میں پیش کیا گیا، جس میں سب سے نمایاں تجویز وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) کے قیام کی ہے۔

یہ نئی عدالت آئینی معاملات کی واحد مجاز عدالت ہوگی اور اس کے فیصلے سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔ اس اقدام کو ماہرین سپریم کورٹ کے اختیارات میں بڑی کمی تصور کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت پہلے ہی ایف سی سی کے قیام کے لیے ججوں کی ابتدائی فہرست تیار کر چکی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کو چیف جسٹس ایف سی سی بنانے کی تجویز زیرِ غور ہے، جب کہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عامر فاروق، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس کے کے آغا اور چیف جسٹس روزی خان باریچ کے نام بھی زیرِ غور ہیں۔

ایف سی سی میں ججوں کی عمرِ تقاعد 68 سال مقرر کی گئی ہے جبکہ چیف جسٹس کا دورانیہ تین سال ہوگا۔ صدرِ مملکت کو اختیار ہوگا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ہائی کورٹ کے ججوں کا تبادلہ کریں، اور اگر کوئی جج تبادلہ قبول نہ کرے تو اسے سبکدوش تصور کیا جائے گا۔

اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ اب صرف دیوانی اور فوجداری اپیلوں کی عدالت ہوگی، جب کہ آئینی تنازعات، بنیادی حقوق اور بین الصوبائی معاملات کے مقدمات ایف سی سی کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہ ترمیم پاکستان کے عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلی لا سکتی ہے، جس سے دو اعلیٰ عدالتوں کا متوازی وجود قائم ہو جائے گا اور سپریم کورٹ کی تاریخی حیثیت کمزور ہو سکتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں