سینیٹ نے شور شرابے کے باوجود 27ویں آئینی ترمیم منظور کر لی

0
25

سینیٹ نے پیر کے روز شور شرابے اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کے باوجود 27ویں آئینی ترمیم کا متنازعہ بل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا۔ 96 رکنی ایوان میں 64 اراکین نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ اپوزیشن ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا جس کے دوران اپوزیشن بینچوں کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی۔ اراکین نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر وزیر قانون کی میز پر پھینک دیں اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے، جس کے بعد بل کی منظوری میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی۔

ترمیمی بل کے تحت وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) کے قیام، عدالتی ڈھانچے میں اصلاحات، اور فیلڈ مارشل کے عہدے کو تاحیات حیثیت دینے کی منظوری دی گئی۔ بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت میں تمام صوبوں کو برابر نمائندگی دی جائے گی جبکہ اس عدالت میں جج بننے کے لیے تجربے کی لازمی مدت سات سال سے کم کر کے پانچ سال کر دی گئی ہے۔

چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے اجلاس کی صدارت کی جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے بل میں کمیٹی کی جانب سے کی گئی ترامیم کی رپورٹ پیش کی۔

فاروق نائیک کے مطابق بل میں ججز کی تعیناتی اور تبادلے کے طریقہ کار میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، اور اب ججز کا تبادلہ صدر مملکت کے بجائے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ کمیٹی نے بل میں تکنوکریٹ کو بھی جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنانے کی منظوری دی ہے۔

اجلاس کے دوران حکومتی ارکان نے بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں ترمیم عدالتی اصلاحات اور وفاق کی مضبوطی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر آغا شہزایب درانی نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر ضمیر حسین گھمرو نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے اصل کردار سے ہٹ کر بنیادی حقوق کے مقدمات سن رہی ہے، جو دراصل ہائی کورٹس کا دائرہ کار ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن ارکان نے بل کو "جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی پر وار” قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین اور اداروں کو کمزور کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے اداروں کے اختیارات سلب کیے جا رہے ہیں۔

ترمیمی بل میں وزیر اعظم کو استثنا دینے کی تجویز بھی شامل تھی تاہم وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے مسترد کر دیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ منتخب وزیر اعظم کو قانون اور عوام کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی میں بھی اس بل کی منظوری متوقع ہے، جہاں اتحادی جماعتوں کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کو "اچھی طرز حکمرانی، وفاقی ہم آہنگی اور آئینی ارتقاء” کی علامت قرار دیا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں