پشاور، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے بدھ کے روز وفاقی حکومت کی انسدادِ دہشت گردی پالیسی میں جامع تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سازی کے عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔ وہ صوبائی حکومت کی جانب سے منعقدہ ہمہ جماعتی امن جرگے سے خطاب کر رہے تھے، جس کا مقصد صوبے میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینا اور دیرپا امن کے لیے حکمتِ عملی تیار کرنا تھا۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل بند کمروں میں کیے گئے فیصلوں سے نہیں نکلے گا۔ “اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دوسروں کو بھی سمجھدار سمجھیں، سیاست دانوں کو دانشمند مانیں اور فیصلہ سازی میں سیکیورٹی اداروں، سیاسی جماعتوں اور عوام سب کو شریک کریں۔”
انہوں نے کہا کہ پالیسی وقتی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر ہونی چاہیے تاکہ خیبر پختونخوا سے دہشت گردی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں صوبے نے بدترین دہشت گردی کا سامنا کیا ہے اور عوام نے امن کی خاطر بے شمار قربانیاں دی ہیں۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے جرگے میں شرکت کرتے ہوئے اسے “اجتماعی دانش اور قومی اتحاد کی عکاسی” قرار دیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ اس مکالمے کا تسلسل برقرار رہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہمیں ماضی کی سیاست کے بجائے مستقبل اور اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچنا ہوگا۔”
کنڈی نے بتایا کہ دہشت گرد جدید ہتھیار، جیسے نائٹ ویژن رائفلز اور تھرمل سنائپرز، استعمال کر رہے ہیں، جن سے نمٹنے کی صوبے کی صلاحیت محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ “وفاق، فوج، اور صوبائی حکومت کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔”
وزیراعلیٰ آفریدی نے ایک بار پھر صوبے کے حصے کے مطابق نیشنل فنانس کمیشن (NFC) سے مکمل فنڈز، تقریباً 400 ارب روپے، فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابقہ فاٹا کا انتظامی انضمام تو ہو چکا ہے مگر معاشی انضمام ابھی باقی ہے۔
اس جرگے میں عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی (ف)، جماعتِ اسلامی، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام بڑی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔ اسپیکر بابر سلیم سواتی نے اجلاس کی صدارت کی۔
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے، اس لیے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر رابطوں کو بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ “افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں بھی امن آئے گا۔”
اے این پی کے میاں افتخار حسین نے زور دیا کہ “اچھے طالبان، برے طالبان” کی پالیسی ہمیشہ کے لیے ختم ہونی چاہیے اور نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ “ہم نے دہشت گردی کے خلاف کھل کر مقابلہ کیا، ملاکنڈ ڈویژن کو صاف کیا اور بے گھر افراد کو دوبارہ آباد کیا۔”
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اقبال اللہ خان نے کہا کہ آج کا جرگا ایک تاریخی موقع ہے جہاں تمام سیاسی جماعتیں امن کے لیے یکجا ہوئی ہیں۔ “ہم اپنے اختلافات بھلا کر بیٹھے ہیں کیونکہ ہمارے بچوں کے قاتلوں کو کوئی معافی نہیں مل سکتی۔”
گورنر کنڈی نے کہا کہ “ہمیں سیاست سے بالاتر ہو کر صوبے کی ترقی اور عوام کے مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔”
سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے کہا کہ “گزشتہ امن جرگوں کے نتائج پر عمل کیوں نہیں ہوا؟” انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اب عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ یہ مکالمہ حقیقی نتائج دے۔
وزیراعلیٰ آفریدی نے آخر میں کہا کہ “ہماری سیاست مختلف ہو سکتی ہے، لیکن ہمارا امن مشترکہ ہے۔ جنگ ہمیشہ آخری آپشن ہونی چاہیے۔”
یہ جرگا ایسے وقت میں منعقد ہوا جب خیبر پختونخوا اور ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی نئی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بنوں، وانا اور اسلام آباد میں دھماکوں نے صورتحال کی سنگینی کو واضح کیا ہے۔ سابق صوبائی وزیر کامران بنگش نے کہا کہ “امن دشمن عناصر اس جرگے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ ناکام ہوں گے۔”
جرگے کا اختتام شہداء کے ایصالِ ثواب کی دعا اور اس عزم کے ساتھ ہوا کہ تمام سیاسی قوتیں صوبے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھیں گی۔


