چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز کے خطوط پر فل کورٹ اجلاس طلب کر لیا

0
20

اسلام آباد (ایم این این): چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے جمعہ کے روز سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس طلب کر لیا ہے، جس کا مقصد 27ویں آئینی ترمیم پر عدلیہ کے اندر بڑھتی ہوئی تشویش پر غور کرنا ہے۔

یہ اجلاس اس وقت بلایا گیا جب جسٹس صلاح الدین پھلپھارو نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر تمام ججوں کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی۔

وہ تیسرے جج ہیں جنہوں نے ایسا مطالبہ کیا، اس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اسی نوعیت کے خطوط لکھے تھے، تاہم دونوں نے جمعرات کی شام بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا۔

جسٹس صلاح الدین پھلپھارو نے دو صفحات پر مشتمل اپنے خط میں چیف جسٹس سے استدعا کی کہ وہ ترمیم کی ہر شق کو آئین کے آرٹیکل 175، 175A، 189، 190، 191 اور 209 کے تناظر میں جانچنے کے لیے فل کورٹ اجلاس بلائیں۔ فل کورٹ اجلاس جمعہ کی نماز سے قبل سپریم کورٹ بلڈنگ میں منعقد کیا گیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ خط احتجاج کے طور پر نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری کے تحت لکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، “کبھی ایسا وقت آتا ہے جب خاموشی احتیاط نہیں بلکہ دستبرداری بن جاتی ہے، اور شاید اب وہ وقت آ گیا ہے۔”

انہوں نے خبردار کیا کہ یہ ترمیم عدلیہ کے تحفظات، بنچوں کی تشکیل، ججوں کی تقرری و برطرفی، اور عدالتی خودمختاری کے توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔ جسٹس پھلپھارو نے لکھا، “ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو مضبوط کرتی ہے یا کمزور؟ اگر کمزور کرتی ہے تو ہمیں سچ کہنا ہوگا، غصے میں نہیں بلکہ دیانتداری سے۔”

انہوں نے تجویز دی کہ قانون و انصاف کمیشن کے ذریعے ایک تکنیکی بریف تیار کی جائے اور ضرورت پڑنے پر نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی سے مشاورت کی جائے۔ اس کے ساتھ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کو بھی اعتماد میں لیا جائے کیونکہ “بار اور بینچ انصاف کے دو محافظ ہیں۔”

جسٹس پھلپھارو نے آرٹیکل 190 کے تحت عدلیہ کے اختیارات کے تحفظ کی تیاری پر بھی زور دیا تاکہ اگر کوئی عدالتی کارروائی ہو تو عدالتی احکامات بے اثر نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ “پارلیمنٹ کو ترمیم کا اختیار حاصل ہے لیکن یہ لامحدود نہیں۔ آئین مٹی نہیں کہ اسے مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکے بلکہ یہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک عہد ہے۔”

جسٹس پھلپھارو نے لکھا کہ ان کی درخواست اختلاف نہیں بلکہ ضمیر کی آواز ہے۔ “تاریخ ہمیں ہمارے آرام کے دنوں سے نہیں بلکہ ہمارے فیصلوں کے حوصلے سے یاد رکھے گی۔”

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عدلیہ آزاد نہیں رہی — خوف، دباؤ اور کنٹرول سے آزاد — تو قانون کی حکمرانی ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جائے گی۔ “محض مداخلت کا تاثر بھی عوامی اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے، اور اعتماد ہی انصاف کی روح ہے، جو ایک بار ختم ہو جائے تو کسی فرمان سے بحال نہیں ہو سکتا۔”

دوسری جانب ممتاز وکیل اسد رحیم خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ آئین 1973 کے تحت دیے گئے عدالتی اختیارات کو پارلیمنٹ کسی ترمیمی قانون کے ذریعے محدود یا ختم نہیں کر سکتی۔ درخواست میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی اپیل بھی کی گئی۔

ادھر صدر آصف علی زرداری نے آج 27ویں آئینی ترمیم پر دستخط کر دیے، جس کے بعد یہ قانون بن گیا ہے۔ صدارتی سمری کے مطابق، “وزیرِ اعظم کی سفارش پر 27ویں آئینی ترمیمی بل 2025 کو منظوری دی .

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں