اسلام آباد (ایم این این); جریدے دی اکانومسٹ کی ایک جامع رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کی اپنی روحانی رہنمائی فراہم کرنے والی مشیر بشریٰ بی بی سے شادی نے ابتدا ہی میں پورے ملک کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ آج، برسوں بعد بھی یہ رشتہ نہ صرف عوامی گفتگو کا مرکز ہے بلکہ سیاسی منظرنامے پر بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ خصوصاً اس وقت جب عمران خان اور بشریٰ بی بی دونوں جیل میں ہیں اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک غیر یقینی سیاسی راستے پر کھڑی ہے، مبصرین کا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی اب عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں—چاہے وہ اصولوں پر قائم رہتے ہوئے جیل میں رہیں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت کرکے آزاد ہو جائیں۔
عمران خان کی ملاقات بشریٰ بی بی سے ان کی بہن مریم کے ذریعے ہوئی۔ مریم کے مطابق عمران خان اکثر زندگی کے معنوں، مذہب اور روحانیت سے متعلق سوالات میں الجھے رہتے تھے۔ اسی بے چینی کے دوران مریم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی بہن بشریٰ بی بی سے بات کریں، جو صوفیانہ تعلیمات سے خاصی وابستگی رکھتی تھیں۔ ابتدا میں بشریٰ بی بی نے صاف انکار کیا کہ وہ خاندان کے باہر مردوں سے نہیں ملتیں، مگر ایک فون کال پر رضا مند ہو گئیں۔ یہی ایک کال راتوں کو جاری رہنے والی طویل گفتگو میں بدل گئی، اور وہی گفتگو چند ماہ بعد ذاتی ملاقاتوں میں ڈھل گئی۔
بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے شروع میں اس صورتحال کو اچھا سمجھا۔ انہیں ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت کا اپنے گھر آنا باعث فخر محسوس ہوتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے بشریٰ بی بی کی عمران خان سے قربت بڑھتی گئی، وہ بے سکون ہوتے گئے۔ مانیکا کے مطابق کئی مواقع ایسے بھی آئے جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو ماحول میں اچانک خاموشی چھا جاتی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی بیوی نے عمران خان سے کہا کہ اگر وہ دونوں شادی کرلیں تو وہ مستقبل میں وزیر اعظم ضرور بنیں گے۔ بشریٰ بی بی اس دعوے کی تردید کرتی ہیں، مگر 2017 کے آخر تک ان کی پہلے شوہر سے طلاق ہوگئی، اور یکم جنوری 2018 کو بشریٰ بی بی اور عمران خان نے ایک سادہ اور خفیہ نکاح کر لیا۔ عمران خان نے بعد ازاں کہا کہ نکاح سے پہلے انہوں نے اپنی دلہن کا چہرہ تک نہیں دیکھا تھا، کیونکہ اب ظاہری شکل و صورت ان کے لیے ترجیح نہیں رہ گئی تھی۔
وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان اپنے انتخابی وعدوں، جیسے اسلامی فلاحی ریاست کا قیام اور کروڑوں نوکریوں کی فراہمی، کو پورا کرنے میں مشکلات کا شکار رہے۔ دوسری جانب فوجی قیادت اور بااثر سیاسی حلقوں کے ساتھ بھی ان کے تعلقات تیزی سے بگڑتے گئے۔ اسی دوران ان کی اہلیہ بھی تنازع کا حصہ بنتی چلی گئیں۔ کئی وزراء اور ذاتی اسٹاف نے شکایت کی کہ بشریٰ بی بی ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرتی ہیں۔ کابینہ کے ایک رکن نے کہا کہ ان کی مداخلت مکمل تھی، اور بعض اوقات حکومتی امور میں پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی تھیں۔
آج عمران خان ایک اہم دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم رہیں اور جیل میں رہتے ہوئے مزاحمت جاری رکھیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں نرم موقف اختیار کریں، جس سے ان کی رہائی اور پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے کئی رہنما سمجھتے ہیں کہ بشریٰ بی بی، جو خود بھی کرپشن الزامات پر جیل میں ہیں، عمران خان کو مصالحت پر آمادہ کر سکتی ہیں۔
یہ کہانی کہ پنجاب کے ایک نسبتاً غیر معروف علاقے سے تعلق رکھنے والی گھریلو خاتون کس طرح ملکی سیاست کی مرکزی شخصیت بن گئیں، عوامی بحث و مباحثے کا ہمیشہ سے موضوع رہی ہے۔ مگر اس کہانی میں غلط معلومات، سازشی نظریات اور نسوانیت کے خلاف رویوں کی آمیزش بھی نظر آتی ہے۔ بعض لوگ اسے عمران خان کی سادگی اور دوسروں پر جلد بھروسہ کر لینے کی عادت کا نتیجہ سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اسے پاکستانی سیاست کی پیچیدہ اور پوشیدہ قوتوں کا اثر قرار دیتے ہیں۔
بشریٰ بی بی کے پس منظر کے بارے میں ان کے قریبی حلقوں سے ملنے والی معلومات کچھ اور ہی تصویر پیش کرتی ہیں۔ ان کی بہن مریم کے مطابق ان کی پہلی شادی خوشگوار نہیں تھی، اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے صوفی ازم کی طرف زیادہ جھکاؤ اختیار کیا۔ جیسے جیسے ان کے بچے بڑے ہوتے گئے، وہ پاکپتن کے معروف صوفی بزرگ بابا فرید کے مزار پر زیادہ وقت گزارنے لگیں۔ وقت کے ساتھ وہ روحانی مشورہ دینے والی شخصیت کے طور پر پہچانی جانے لگیں، اور عمران خان انہی دنوں ان کے مریدوں میں شامل ہوئے جب وہ ذاتی و سیاسی زندگی سے مایوس تھے۔
عمران خان کے کئی قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے بچپن کے دوست مسعود چشتی نے کہا کہ عمران خان سادہ مزاج ہیں اور آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ صوفی موسیقار سلمان احمد نے کہا کہ عمران خان بشریٰ بی بی کے روحانی اثر کو بے چون و چرا قبول کرتے ہیں، اور یہی ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کے خاندان کی جانب سے بھی سنگین الزامات سامنے آئے۔ ایک عزیز نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین سے رابطہ کرکے بتایا کہ بشریٰ بی بی مبینہ طور پر جادو ٹونا کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے ان تمام کہانیوں کو سیاسی پراپیگنڈا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سب ان لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں جنہیں ملازمتوں سے ہٹایا گیا۔
اس کے باوجود، سابق گھریلو ملازمین نے کچھ تفصیلات بیان کیں۔ خان صاحب کے سابق ڈرائیور سفیر کے مطابق شادی کے فوراً بعد انہیں گھر سے حکم ملتا تھا کہ مخصوص مقدار میں گوشت لائیں۔ گوشت کو مبینہ طور پر عمران خان کے سر کے گرد گھمایا جاتا اور پھر چھت پر پھینک دیا جاتا تاکہ پرندے اسے کھا جائیں۔ اسی طرح ایک قصائی نے بھی عجیب و غریب آرڈرز ملنے کی بات کی، جن میں جانوروں کے سر اور کبھی کبھار زندہ سیاہ بکرے شامل تھے۔
مزید یہ کہ عمران خان مبینہ طور پر اپنی اہلیہ کی چہرہ شناسی جیسی روحانی صلاحیتوں پر اس قدر یقین رکھتے تھے کہ انتخابی امیدواروں کی تصاویر انہیں دکھاتے اور ان کی رائے لیتے۔ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک موقع پر عمران خان کو سفر مؤخر کرنے کا مشورہ دیا، جس کے بعد گھنٹوں تک طیارہ رن وے پر کھڑا رہا۔ سابق وزیر فیصل واوڈا نے کہا کہ وہ عمران خان کے جذبے کے مداح تھے، مگر انہیں حیرت ہوتی تھی کہ بشریٰ بی بی اکثر اہم ملاقاتوں میں دخیل ہوتی دکھائی دیتی تھیں، یہاں تک کہ ایک ملاقات میں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی زیادہ بات کی۔
پی ٹی آئی ان تمام باتوں کو بے بنیاد قرار دیتی ہے۔ ایک سابق ترجمان نے کہا کہ وہ خود کئی اہم اجلاس میں موجود تھے اور بشریٰ بی بی نے کبھی فیصلہ سازی میں حصہ نہیں لیا۔
پاکستانی میڈیا میں ایک اور مشہور کہانی گردش کرتی رہی کہ آئی ایس آئی کے سابق اعلیٰ افسر جنرل فیض حمید نے بشریٰ بی بی کو بالواسطہ ذریعہ بنا کر عمران خان تک کچھ معلومات پہنچائیں۔ اس نظریے کے مطابق یہ معلومات ایک ”پیر“ تک پہنچائی جاتیں، جو انہیں بشریٰ بی بی تک، اور پھر عمران خان تک منتقل کرتا۔ فیصل واوڈا کے مطابق اسی وجہ سے خان صاحب کا سیاسی فیصلہ سازی پر اعتماد کمزور پڑا۔ پی ٹی آئی نے اس سازشی بیانیے کو رد کرتے ہوئے اسے ایک ناول کی کہانی جیسا قرار دیا۔
ایک اور اہم تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب عمران خان نے 2019 میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل عاصم منیر کو محض آٹھ ماہ بعد ہٹا دیا۔ میڈیا میں یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ جنرل منیر نے مبینہ طور پر بشریٰ بی بی کی بدعنوانی کے ثبوت عمران خان کے سامنے رکھے تھے۔ عمران خان ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنرل منیر نے برطرفی کے بعد ان کی اہلیہ کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
پی ٹی آئی کے اندر بھی رائے منقسم ہے۔ بعض قریبی مشیران، جن میں عمران خان کی بہن علیمہ بھی شامل ہیں، انہیں مشورہ دیتی ہیں کہ وہ کسی قسم کی ڈیل نہ کریں۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی مذاکرات کے حق میں ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ ہی راستہ پی ٹی آئی کو دوبارہ اقتدار تک لے جا سکتا ہے۔
بہت سے پاکستانی عوام کے لیے، جو عمران خان کو ایک ایسے رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں جو ملک کو طاقتور اشرافیہ کے چنگل سے نکال سکتا ہے، یہ سوال انتہائی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اصول پر قائم رہیں گے یا مصالحانہ راستہ اختیار کریں گے۔ عمران خان نے اپنی حالیہ جیل سے جاری پیغام میں کہا کہ بشریٰ بی بی نے کبھی انہیں کمزور نہیں کیا، بلکہ اپنے حوصلے سے انہیں مزید مضبوط بنایا ہے۔


