سکھر میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آل سندھ وکلاء کنونشن کے دوران ہفتے کے روز شدید ہنگامہ آرائی ہوئی جس کے بعد پولیس نے پانچ افراد کو حراست میں لے لیا۔
واقعہ اس وقت سنگین صورت اختیار کر گیا جب ایک گروہ نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف اور دوسرے گروہ نے ان کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی۔ صورتحال مزید بگڑ گئی جب سادہ لباس افراد کنونشن میں داخل ہوئے اور ان کی وکلا کے ساتھ تلخ کلامی اور ہاتھا پائی ہوگئی۔
احتجاج کرنے والے کچھ وکلاء نے پانچ سادہ لباس افراد کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں پولیس کے حوالے کر دیا۔ ایڈووکیٹ کے بی لغاری نے بتایا کہ یہ افراد کنونشن میں گھس آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء آپس میں بھائی ہیں اور کسی کو انہیں لڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہنگامے کے دوران سکھر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قربان علی ملانو کی طبیعت خراب ہوگئی، جس پر انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کارکنوں پر الزام
وکلاء کے مطابق ہنگامہ کرنے والے افراد کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ مرکزی کردار میرا ج گوپانگ کو قرار دیا گیا جو پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور شہید بینظیر ڈویژن سے وابستہ ہیں۔
جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب کراچی بار کے جنرل سیکریٹری رہمان کورائی نے اپنی تقریر میں سندھ کے وزیرِ داخلہ ضیاء الحسن لانجار کا نام لیا، جس پر مبینہ پی پی کارکنوں نے سینئر وکلاء عامر نواز وڑائچ، ملانو، لغاری، حسیب جمالی اور شفقات رحیم پر حملہ کر دیا۔ وکلاء نے انہیں بچانے کی کوشش کی مگر چند سینئر وکلاء زخمی ہوگئے۔
جب ان افراد کو پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا تو انہوں نے بھٹو زندہ باد کے نعرے لگائے۔
مذمت
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے آئین، قانون، جمہوری روایات اور آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا۔
وزیرِ داخلہ کا نوٹس
وزیر داخلہ ضیاء الحسن لانجار نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسے قابلِ مذمت قرار دیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ حملے میں ملوث تمام افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ لانجار نے کہا کہ وکلاء ان کا اپنا خاندان ہیں اور اتحاد برقرار رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت وکلاء کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی جبکہ واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔


