پاکستان کا عالمی برادری سے فوری اقدام کا مطالبہ، ہمالیہ و قراقرم کے گلیشیئرز بے مثال تیزی سے پگھل رہے ہیں

0
51

اسلام آباد (ایم این این); وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش (ایچ کے ایچ) خطے میں گلیشیئرز بے مثال رفتار سے پگھل رہے ہیں، جس کے باعث جنوب ایشیا کی کروڑوں آبادی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ انہوں نے یہ بات سی او پی 30 کے موقع پر منعقدہ سائیڈ ایونٹ ’کریوسفیئر ایڈاپٹیشن اینڈ ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن‘ میں ویڈیو خطاب کرتے ہوئے کہی۔

وزیر نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 13 ہزار گلیشیئرز موجود ہیں جو دریائے سندھ کے نظامِ آبپاشی کو سہارا دیتے ہیں۔ آئی سی آئی موڈ کی 2023 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمالیائی گلیشیئرز، جو دو ارب کے قریب لوگوں کی پانی کی ضرورت پوری کرتے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس سے خطرناک اور مہنگی آفات کا امکان بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ گلیشیئر پگھلنے سے گلیشیئر جھیل پھٹنے (گلاف) جیسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو نشیبی علاقوں میں شدید سیلاب کا سبب بنتے ہیں۔

یہ تقریب وزارتِ موسمیاتی تبدیلی اور آئی سی آئی موڈ کے اشتراک سے منعقد ہوئی جس میں ترکیہ، آذربائیجان، نیپال، بھوٹان، یونیسکو، یو این ڈی پی اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ڈاکٹر ملک نے ایچ کے ایچ خطے کو ’’دنیا کی سفید چھت‘‘ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حساس خطے کے تحفظ کو سی او پی 30 کے ایجنڈے میں ترجیح دے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے 70 فیصد کاربن اخراج کے ذمہ دار صرف دس ممالک ہیں، لیکن عالمی گرین فنانس کا 85 فیصد حصہ بھی وہی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تاریخی اخراج کے ذمہ دار ممالک کو پہاڑی اور کمزور ریاستوں کے لیے مناسب مالی تعاون فراہم کرنا چاہیے۔

برازیل کے شہر بیلیم میں منعقدہ ہائی لیول کلائمیٹ فنانس ڈائیلاگ میں ویڈیو خطاب کرتے ہوئے وزیر نے کہا کہ پاکستان عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود دنیا کے سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے گلیشیئر ملکی ماحولیاتی اور اقتصادی نظام کی بنیاد ہیں، مگر تیزی سے خطرے کا شکار ہیں۔

وزیر نے بتایا کہ پاکستان 2030 تک 60 فیصد قابلِ تجدید توانائی سمیت اپنے قومی ماحولیاتی اہداف (این ڈی سیز) پر عملدرآمد کر رہا ہے، جبکہ لیونگ انڈس اور ری چارج پاکستان جیسے منصوبوں کے ذریعے ماحولیاتی بحالی جاری ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ قومی کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک عالمی سطح پر قابلِ بھروسہ اور آسانی سے دستیاب موسمیاتی مالیاتی وسائل فراہم نہ کیے جائیں۔

انہوں نے لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے عملی نفاذ، نئے مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات، ٹیکنالوجی کی فراہمی اور گلوبل ساؤتھ میں صلاحیت سازی کے اقدامات پر زور دیا۔ وزیر نے کہا کہ اکثر موسمیاتی فنڈز تعلیم، صحت اور ترقی کے دیگر شعبوں سے قرضوں کی شکل میں منتقل کیے جاتے ہیں، جس سے ترقی پذیر ممالک شدید مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔

تقریب کے اختتام پر شرکاء نے موسمیاتی طور پر کمزور ممالک کے لیے مضبوط شراکت داری، شفاف مالیاتی نظام اور ہنگامی عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں