امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ سعودی عرب کو جدید ایف-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی منظوری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو عرب ممالک کو اعلیٰ درجے کے اسلحے کی فراہمی کے حوالے سے امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد سے ایک دن قبل، ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ “ایف-35 طیارے فروخت کرے گا” اور سعودی عرب کو ایک بہترین اتحادی قرار دیا۔
یہ فیصلہ سعودی عرب کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ ریاض کو ابراہیم معاہدوں کے تحت اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم سعودی حکام نے بارہا کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہے، جیسا کہ عرب امن منصوبے میں بیان کیا گیا ہے۔
واشنگٹن اور ریاض کے درمیان اس ممکنہ دفاعی معاہدے نے اسرائیل کی معیاری فوجی برتری کے تحفظ کے حوالے سے خدشات پیدا کر دیے ہیں، جو امریکی قانون کا حصہ ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی کی بنیاد ہے۔ متعدد اسرائیلی حکام نے اس معاہدے کی مخالفت کی ہے۔
1968 میں صدر لنڈن جانسن کے دور میں قائم ہونے والا یہ اصول، جسے بعد میں رونلڈ ریگن نے باضابطہ شکل دی، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اسرائیل خطے میں کسی بھی ممکنہ دشمن کے خلاف واضح عسکری برتری برقرار رکھے۔
ایف-35 طیارہ، جو لاک ہیڈ مارٹن تیار کرتا ہے، دنیا کا جدید ترین لڑاکا طیارہ مانا جاتا ہے، جس میں ایسی ٹیکنالوجی شامل ہے جو دشمن کے ریڈار سے اسے پوشیدہ رکھتی ہے۔ اسرائیلی ناقدین کہتے ہیں کہ اس کی فروخت مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع کر سکتی ہے۔
اسرائیلی اپوزیشن رہنما اور سابق ڈپٹی آرمی چیف یائر گولان نے خبردار کیا کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی دہائیوں پرانی عسکری برتری کو کمزور کر سکتا ہے اور موجودہ حکومت کو ناکام قرار دیا۔ نیشنل سیکیورٹی وزیر ایتامار بن گویر نے بھی کہا کہ اسرائیل کو فضائی برتری ہر صورت برقرار رکھنی چاہیے۔
ٹرمپ کا یہ اعلان شہزادہ محمد بن سلمان کی وائٹ ہاؤس آمد سے پہلے سامنے آیا، جو واشنگٹن کی ریاض کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی کوششوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ امریکہ ماضی میں عرب ممالک کو فروخت کیے جانے والے اسلحے کا معیار کم کر کے یا اسرائیل کو زیادہ جدید نظام فراہم کر کے اس توازن کو برقرار رکھتا آیا ہے۔
شہزادہ محمد کا یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
ایف-35 معاہدے کے حوالے سے سوال پر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے ایک کارروائی میں ایران کی جوہری تنصیبات “تباہ” کر دی تھیں۔ ادھر سعودی خبر ایجنسی ایس پی اے کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان کو حال ہی میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا ایک ہاتھ سے لکھا گیا خط موصول ہوا ہے۔
اگر یہ ڈیل مکمل ہو جاتی ہے تو سعودی عرب ایف-35 پروگرام میں شامل ہونے والا پہلا عرب ملک بن جائے گا۔ 2020 میں امریکہ نے یو اے ای کو بھی ایف-35 طیارے دینے کی منظوری دی تھی، لیکن صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ معاہدہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ختم ہو گیا۔
امریکی کانگریس کے پاس اختیار ہے کہ صدر یا وزیرِ خارجہ کی منظور کردہ اسلحے کی فروخت کو مسترد کر سکے۔


