اسلام آباد ہائی کورٹ کے چار ججوں کا ستائیسویں ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع

0
76

اسلام آباد (ایم این این); اسلام آباد ہائی کورٹ کے چار ججوں نے ستائیسویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس مقصد کے لیے آرٹیکل 184(3) کے تحت ایک ڈرافٹ درخواست تیار کرلی گئی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس سمن رفعت امتیاز نے درخواست پر دستخط کیے ہیں، تاہم اسے تاحال باضابطہ طور پر سپریم کورٹ میں جمع نہیں کرایا گیا۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری نے درخواست کو وصول نہیں کیا کیونکہ آرٹیکل 184(3)، جو بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے عدالتِ عظمیٰ کا خصوصی اختیار تھا، آئین سے حذف ہو چکا ہے۔ رجسٹری حکام کے مطابق جج نہ تو درخواست جمع کرانے آئے اور نہ ہی بائیو میٹرک تصدیق مکمل کی۔

ان ججوں کا یہ اقدام کئی ماہ کی اس تشویش کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے 26ویں ترمیم سے شروع ہونے والے اور اب تازہ ترامیم تک پہنچنے والے عدلیہ کے اختیارات میں بتدریج کمی کے خدشات ظاہر کیے تھے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نئی ترمیم آئین کے آرٹیکل 9، 10اے اور 25 کی خلاف ورزی کرتی ہے، جو شہریوں کو جان و مال کے تحفظ، منصفانہ ٹرائل اور مساوی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزاروں کے مطابق ترمیم نے اختیارات کی تقسیم کے آئینی ڈھانچے کو بدل دیا ہے اور موجودہ ججوں کے سروس ٹرمز میں غیر آئینی مداخلت کی ہے۔

درخواست کا بنیادی نکتہ فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ (ایف سی سی) کا قیام ہے، جسے آئینی معاملات پر مکمل اختیار دے دیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایف سی سی کے چیف جسٹس کی تقرری صرف وزیر اعظم کی مشاورت پر ہوئی، عدلیہ سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا، جو الجہاد ٹرسٹ اور شرف فاریدی جیسے تاریخی فیصلوں کے اصولوں کے خلاف ہے۔

درخواست میں ایف سی سی کے پہلے ججوں کی تقرری کا بھی چیلنج کیا گیا ہے، یہ مؤقف اپناتے ہوئے کہ ان افراد کا انتخاب پہلے ہی طے شدہ تھا اور انہیں ایگزیکٹو نے ترمیم کے نافذ ہونے سے پہلے ہی "ہینڈ پک” کر لیا تھا۔

درخواست کے مطابق ایف سی سی کا ڈھانچہ — جو دیگر تمام عدالتوں کو پابند کرتا ہے مگر خود اپنے نظائر کا پابند نہیں — ایک ایسا متوازی عدالتی نظام تشکیل دیتا ہے جس کی مثال کامن لا نظاموں میں موجود نہیں۔ مزید کہا گیا کہ ایف سی سی کا ہائی کورٹس سے مقدمات واپس لینے کا مکمل اختیار آئینی تشریحات کو براہِ راست ایگزیکٹو کے اثر میں لانے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔

درخواست میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے، جس میں اب اکثریت غیر عدالتی ارکان یا وہ جج ہیں جو اسی متنازع ڈھانچے کے تحت تعینات ہوئے۔ ججوں کے مطابق اس سے میرٹ پر مبنی تقرریوں کی جگہ سیاسی اثر و رسوخ نے لے لی ہے۔

سپریم کورٹ رجسٹری کے مطابق یہ معاملہ چونکہ آئینی ترمیم سے متعلق ہے، اس لیے ممکن ہے کہ یہ عدالتِ عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں نہ آتا ہو۔ حکام نے تجویز دی کہ اسے آئینی ترامیم کے چیلنجز کے خصوصی طریقہ کار کے تحت دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کی قانونی حیثیت کا فیصلہ صرف سپریم کورٹ ہی کر سکتی ہے، کیونکہ ایف سی سی کا اپنا وجود اسی ترمیم پر منحصر ہے۔ ان کے مطابق ترمیم سے وجود میں آنے والا کوئی فورم اپنے ہی قیام کی آئینی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتا، اور آئین کی تشریح کا اعلیٰ ترین اختیار بدستور سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں