اسلام آباد (ایم این این); روسی وزارتِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اُس قرارداد پر سخت اعتراضات اٹھائے ہیں جو 17 نومبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ کے خاتمے کے منصوبے کی بنیاد پر منظور کی گئی۔ قرارداد کے حق میں 13 ووٹ آئے جبکہ روس اور چین نے غیر حاضری اختیار کی۔
امریکی مسودے میں غزہ کے انتظام کے لیے ایک پیس بورڈ کے قیام کی تجویز ہے جس کی سربراہی ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے اور ان کے مطابق دنیا کے با اثر رہنما بھی اس میں شامل ہوں گے۔ یہ بورڈ اسرائیل اور مصر کے تعاون سے بین الاقوامی استحکام فورسز کی تعیناتی کا اختیار رکھے گا۔ ان فورسز کا مقصد غزہ کو غیر مسلح کرنا اور حماس سمیت دیگر گروہوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہوگا۔
تاہم قرارداد میں فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کی حکمرانی یا مستقبل کے فیصلوں میں کوئی کردار نہیں دیا گیا، اور نہ ہی اسرائیل پر بطور قابض قوت کوئی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، جیسے کہ فلسطینی زمینوں کے انضمام سے باز رہنا یا اپنی فوج کا انخلا۔
روس نے کہا کہ اس پورے عمل میں سلامتی کونسل اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹریٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، خصوصاً بین الاقوامی فورسز کی نگرانی اور تعیناتی کے معاملات میں۔ اس کے علاوہ قرارداد کو انتہائی جلد بازی اور دباؤ کے ماحول میں آگے بڑھایا گیا، بغیر کسی سنجیدہ مشاورت کے۔
روسی قیادت نے بتایا کہ انہوں نے اپنا متبادل مسودہ بھی پیش کیا تھا جس کا مقصد فلسطین اسرائیل تنازع کے حل کے لیے بین الاقوامی قانونی اصولوں کی جانب واپسی تھا، مگر اس سے صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔
روس کے مطابق منظور شدہ قرارداد 2803 سلامتی کونسل کو عالمی امن قائم رکھنے کے لیے درکار اختیارات نہیں دیتی اور نہ ہی دو ریاستی حل کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ بنیادوں کی حمایت کرتی ہے۔
روس نے کہا کہ اس نے ووٹنگ میں غیر حاضری کا فیصلہ فلسطینی اتھارٹی کے مؤقف اور عرب و مسلم ممالک کی حمایت کی وجہ سے کیا تاکہ غزہ میں صورتحال مزید نہ بگڑے۔
روسی وزارتِ خارجہ نے یہ بھی یاد دلایا کہ واشنگٹن نے گزشتہ دو برسوں میں چھ مرتبہ فوری جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کیا جس سے جنگاور شہریوں کی تکلیف بڑھتی رہی۔
روس نے خبردار کیا کہ یہ فیصلہ غزہ میں کسی بھی یکطرفہ تجربے یا فلسطینیوں کے جائز حق خود ارادیت کو نقصان پہنچانے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔


