برسلز (MNN); پاکستان اور یورپی یونین نے اتوار کے روز مشترکہ بیان میں افغانستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین سے سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے اور انسانی حقوق، خصوصاً خواتین اور بچیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
یہ اعلان برسلز میں ہونے والے ساتویں پاک-یورپی یونین اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے بعد کیا گیا، جس کی مشترکہ صدارت نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کاجا کالاس نے کی۔
خارجہ دفتر کے مطابق دونوں فریقوں نے گزشتہ ماہ سرحدی کشیدگی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر بات چیت کی اور علاقائی امن، استحکام، خوشحالی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اور یورپی یونین نے افغانستان کے de facto حکام پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعمیری کردار ادا کریں۔ دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی بگڑتی ہوئی سماجی و معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار بھی کیا اور پرامن، مستحکم اور خود مختار افغانستان کی خواہش کا اعادہ کیا۔
بیان میں امید ظاہر کی گئی کہ طالبان حکام اقوام متحدہ کے تحت جاری دوحہ عمل کے مطابق ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل کی حمایت کریں گے۔ یورپی یونین نے پاکستان کی جانب سے چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کو سراہا، تاہم واضح کیا کہ واپسی کا کوئی بھی عمل محفوظ، باوقار اور عالمی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
دونوں فریقوں نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق خصوصاً خواتین، بچیوں اور دیگر کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔
پاک۔افغان تعلقات میں تناؤ
حالیہ مہینوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں، جن کی بنیادی وجہ ٹی ٹی پی کی موجودگی اور کارروائیاں ہیں۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ کابل سرحد پار حملے روکنے کے لیے مؤثر کارروائی کرے، جبکہ افغان طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ پاکستانی مخالف عناصر کو افغانستان سے کارروائی کی اجازت دی جا رہی ہے۔
اکتوبر میں سرحدی جھڑپوں کے بعد مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا لیکن کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ 25 اکتوبر کو انقرہ میں دوسرے دور کے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے، اور 7 نومبر کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا کہ بات چیت غیر معینہ مدت کے لیے رک گئی ہے۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ تجارت معطل کر دی۔ پاکستان پہلے ہی اکتوبر کی جھڑپوں کے بعد سرحد تجارت کے لیے بند کر چکا تھا۔


