پاک افغان کشیدگی کے دوران پاکستانی قونصل جنرل کی اہم طالبان گورنر سے ملاقات

0
27

اسلام آباد (MNN); افغانستان میں متعین ایک پاکستانی سفارتکار نے پاک افغان تعلقات میں بڑھتی کشیدگی اور پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پس منظر میں ننگرہار کے بااثر طالبان گورنر سے اہم ملاقات کی ہے۔ یہ رابطہ کئی ماہ بعد دو طرفہ سطح پر ہونے والی نمایاں سفارتی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستانی قونصل جنرل شفقات اللہ خان اور ننگرہار کے گورنر ملا محمد نعیم اخوند کی ملاقات پیر کو اس وقت ہوئی جب اسی روز صبح پشاور کے صدر علاقے میں فیڈرل کانسٹیبلری ہیڈکوارٹر پر خودکش حملے میں تین اہلکار شہید ہو گئے اور سکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔

یہ طویل وقفے کے بعد جلال آباد میں پاکستانی قونصلیٹ اور ننگرہار حکومت کے درمیان پہلا باضابطہ اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔ ملا نعیم اخوند طالبان قیادت میں اہم مقام رکھتے ہیں اور امیر طالبان ہیبت اللہ اخوند زادہ کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔

ملا نعیم ماضی میں طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996–2001) کے دوران نائب وزیر سرحدات و قبائل اور نائب وزیر سول ایوی ایشن رہ چکے ہیں۔ انہوں نے امریکہ اور نیٹو کے خلاف 20 سالہ جنگ کے دوران طالبان کی عسکری کمیشن میں کلیدی کردار ادا کیا اور جنوبی ہلمند میں طالبان کی جنگی سرگرمیوں کی قیادت بھی کی۔ وہ سابق طالبان سربراہ ملا اختر منصور کے قریبی ساتھی اور موجودہ وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد کے بھی قریبی رفقاء میں شمار ہوتے ہیں۔

افغان سرکاری خبر ایجنسی بختَر کے مطابق “اسلامی امارت خطے اور ہمسایہ ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات، تعاون اور مشترکہ مفادات کے تحفظ کے حوالے سے تعمیری مؤقف رکھتی ہے اور اس حوالے سے متعلقہ کوششیں جاری ہیں۔”

بختَر کے مطابق گورنر ننگرہار نے افغان اور پاکستانی عوام کے درمیان “نیک نیتی، بھائی چارے اور تاریخی رشتے” کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ باہمی احترام، سمجھ بوجھ اور منظم ہم آہنگی کی موجودگی میں مثبت تعلقات کی بنیاد مضبوط رہ سکتی ہے۔

پاکستان طویل عرصے سے یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ دہشت گرد گروہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے لیے استعمال کرتے ہیں، جب کہ افغان طالبان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ موجودہ ملاقات اسی کشیدہ فضا میں ہوئی، جب کہ دونوں ممالک سرحدی واقعات اور سکیورٹی خدشات کے باعث دباؤ کا شکار ہیں۔

جلال آباد میں پاکستانی قونصلیٹ کی جانب سے اس ملاقات پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی دفتر خارجہ نے میڈیا کے سوالات کا جواب دیا۔ تاہم باخبر ذرائع کے مطابق گورنر نعیم نے پاکستانی سفارتکار کو بتایا کہ وہ پہلے ہی دوطرفہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قونصل جنرل شفقات اللہ خان نے گورنر کو پاکستان کے سکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا جبکہ دونوں نے تعلقات کو بحال کرنے اور معمول پر لانے میں دلچسپی ظاہر کی۔ بختَر کے مطابق ملاقات میں “قومیت، زبان، مذہب، ثقافت اور دیگر مشترکات کے ساتھ ساتھ خطے کی صورتحال اور عوام کی روزمرہ ضروریات پر بھی ہمسایہ دوستی کی روایت کے تناظر میں بات چیت کی گئی۔”

ملاقات میں ننگرہار کے ڈپٹی گورنر مولوی عزیزاللہ مصطفی، ڈائریکٹر خارجہ مولوی جان محمد انقلاب، صوبائی ترجمان قاری احسان اللہ عثمانی اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔


حالیہ مہینوں میں پاک افغان تعلقات شدید دباؤ میں ہیں۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا تنازع ہے، اور کابل حکومت کو سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے مؤثر کارروائی کرنا ہوگی، جبکہ افغان طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

اکتوبر میں سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل شروع ہوا، جس میں ترکی اور قطر نے بطور ثالث کردار ادا کیا۔ انقرہ میں دوسرے دور اور استنبول میں مجوزہ اعلیٰ سطحی اجلاس کے باوجود کوئی پائیدار فارمولہ سامنے نہ آ سکا۔ 7 نومبر کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سرحد پار دہشت گردی سے متعلق بات چیت “ختم” ہوچکی اور “غیر معینہ مرحلے” میں داخل ہو گئی ہے کیونکہ فریقین بڑے اختلافات دور کرنے میں ناکام رہے۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات معطل کر دیے، جب کہ پاکستان پہلے ہی اکتوبر کی جھڑپوں کے بعد سرحدی تجارت بند کر چکا تھا۔ ننگرہار میں ہونے والی تازہ ملاقات کو مبصرین رابطوں کی بحالی کی ایک ابتدائی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اگرچہ بنیادی اختلافات بدستور برقرار ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں