اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے پاکستان میں حالیہ آئینی ترامیم پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات عدلیہ کی خودمختاری کمزور کرتے ہیں، فوجی احتساب کو بحران میں ڈالتے ہیں اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
جنیوا سے جاری بیان میں ترک نے کہا کہ نئی ترمیم بھی گزشتہ برس کی 26ویں ترمیم کی طرح بغیر وسیع مشاورت کے منظور کی گئی، جس میں قانونی برادری اور سول سوسائٹی کو شامل نہیں کیا گیا۔
13 نومبر کو منظور کی گئی ترمیم کے تحت آئینی مقدمات کی سماعت اب نئی قائم شدہ فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کرے گی، جب کہ سپریم کورٹ صرف دیوانی اور فوجداری کیسز تک محدود ہو جائے گی۔ ججوں کی تعیناتی اور تبادلوں کے نئے طریقہ کار پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اس سے عدلیہ کی ساختی آزادی متاثر ہو سکتی ہے۔
ترک نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم پہلے ہی ایف سی سی کے چیف جسٹس اور ابتدائی ججوں کی تقرری کر چکے ہیں، جس سے سیاسی مداخلت کا راستہ کھل سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عدلیہ کو سیاسی دباؤ سے محفوظ ہونا چاہیے، کیونکہ آزاد عدلیہ ہی قانون کی یکساں عملداری اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر، فیلڈ مارشل، ائیر چیف مارشل اور ایڈمرل آف دی فلیٹ کو تاحیات گرفتاری اور فوجداری کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہو جائے گا، جو احتساب کے اصول کو کمزور کرتا ہے۔
ترک کا کہنا تھا کہ یہ ترامیم پاکستان کی جمہوری اقدار اور قانون کی حکمرانی پر سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔
یہ ترمیمی بل 13 نومبر کو صدر کی منظوری کے بعد قانون بن گیا، جب سینیٹ نے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود اسے دوسری بار دو تہائی اکثریت سے منظور کیا۔ ووٹنگ کے دوران اپوزیشن نے آئین کی تباہی کے نعرے لگائے، تاہم بل شق بہ شق منظور ہونے کے بعد مکمل طور پر پاس کر دیا گیا۔


