دوشنبے (ایم این این) – تاجک حکام اور چین کے سفارتخانے کے مطابق، افغانستان کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کیے گئے حملوں میں پانچ چینی شہری ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہو گئے۔
دوشنبے میں چینی سفارتخانے نے ہدایت جاری کی ہے کہ سرحدی علاقے میں موجود چینی کمپنیوں اور عملے کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جانا چاہیے۔
سفارتخانے نے بتایا کہ اتوار کے روز افغان سرحد کے قریب چینی شہریوں پر مسلح حملہ کیا گیا، جبکہ جمعہ کو ہونے والے ایک اور حملے میں ڈرون کے ذریعے گرینیڈ گرائے گئے جس میں تین چینی شہری مارے گئے۔
تاجکستان، جو 11 ملین آبادی والا کوہستانی ملک ہے، طالبان حکومت کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھتا ہے اور پہلے بھی اس سرحدی خطے میں منشیات سمگلنگ اور غیر قانونی کان کنی کے خدشات ظاہر کر چکا ہے۔ چین تاجکستان کا ایک بڑا سرمایہ کار بھی ہے۔
افغان حکام کی جانب سے تازہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم گزشتہ ہفتے افغان وزارت خارجہ نے الزام ایک نامعلوم گروہ پر لگایا تھا جو خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے، اور کہا تھا کہ وہ تاجک حکام سے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
تاجک صدر امام علی رحمان نے پیر کے روز سیکیورٹی اداروں کے سربراہان کا اجلاس بلایا اور سرحدی تحفظ مزید سخت کرنے کی ہدایت دی۔ صدر کے دفتر نے حملوں کو غیر قانونی اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔
تاجکستان 1990 کی دہائی کی خانہ جنگی سے اب بھی اثرات رکھتا ہے، اسی دوران رحمان نے اقتدار حاصل کیا۔ ملک روس کے قریبی اتحادیوں میں شامل ہے جہاں روسی فوجی اڈہ بھی موجود ہے، جبکہ افغانستان میں لاکھوں تاجک النسل افراد آباد ہیں جن کی تاریخی حمایت طالبان مخالف قوتوں کے ساتھ جڑی رہی ہے۔


