اسلام آباد (ایم این این) – جوڈیشل مجسٹریٹ نے ہفتے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے جج محمد آصف کے بیٹے ابوزر کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا حکم دیا، جب حادثے میں جاں بحق ہونے والی دونوں لڑکیوں کے اہلخانہ نے عدالت میں ملزم کو معاف کر دیا۔
یہ دل خراش واقعہ پیر کی رات دیر گئے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے قریب پیش آیا، جہاں ایک تیز رفتار سیاہ ایس یو وی، جسے مبینہ طور پر ابوزر چلا رہا تھا، ایک اسکوٹر پر سوار دو نوجوان لڑکیوں سے ٹکرا گئی۔ دونوں لڑکیاں، جو ایک ایونٹ مینجمنٹ کمپنی کے ساتھ جز وقتی طور پر کام کرتی تھیں، موقع پر ہی شدید زخموں کے باعث جان کی بازی ہار گئیں۔
منگل کے روز ملزم کو پولیس نے گرفتار کیا اور جسمانی ریمانڈ پر حاصل کیا۔ چار روزہ ریمانڈ مکمل ہونے پر اسے جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کے سامنے پیش کیا گیا۔ سماعت کے دوران مقتولہ لڑکیوں کے اہلخانہ کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ ایک لڑکی کا بھائی عدالت میں خود پیش ہوا جبکہ اس کی والدہ نے بیان آن لائن جمع کرایا۔ دوسری لڑکی کے والد نے بھی عدالت کو بتایا کہ وہ ملزم کو معاف کر رہے ہیں۔
بیانات مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ملزم کی ضمانت قبول کرتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا حکم جاری کر دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق، جو سب انسپکٹر محمد اصغر کی مدعیت میں سیکرٹریٹ پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی، حادثے کے بعد گاڑی فوراً موقع سے فرار ہو گئی تھی۔ پولیس نے گاڑی کی رجسٹریشن کے ذریعے اس کا سراغ لگایا اور ملزم کو ایک نجی اسپتال سے گرفتار کیا، جہاں وہ مبینہ طور پر طبی امداد کے لیے گیا تھا۔ پولیس نے میڈیکل اور فرانزک نمونے حاصل کیے اور گاڑی کو قبضے میں لے لیا۔
منگل کو عدالت نے پولیس کی استدعا پر مزید ریمانڈ منظور کیا تھا تاکہ میڈیکل رپورٹ کی تصدیق، گاڑی کا معائنہ اور عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے جا سکیں۔ مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 322 (قتل بخطا)، 279 (لاپرواہی سے گاڑی چلانا)، اور 427 (املاک کو نقصان پہنچانا) شامل کی گئی تھیں۔
اہلخانہ کی معافی کے بعد عدالت نے ملزم ابوزر کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔
یہ معاملہ 2022 کے اس معروف ہٹ اینڈ رن کیس کی یاد دلاتا ہے، جس میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی صاحبزادی کی مبینہ طور پر چلائی گئی ایس یو وی نے اسلام آباد ایکسپریس وے پر سہان پل کے قریب دو افراد کو کچل دیا تھا۔ اس کیس کی تفتیش طویل عرصے تک التوا کا شکار رہی۔
جولائی 2024 میں آئی جی اسلام آباد پولیس نے آئی ایچ سی کو بتایا تھا کہ اس مقدمے میں ملوث گاڑی سپریم کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد کے استعمال میں تھی اور اسے ایک خاتون چلا رہی تھیں۔ رواں برس فروری میں جوڈیشل مجسٹریٹ عدنان یوسف نے سپریم کورٹ کے جج کی صاحبزادی شنزے ملک کی بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کر دیا تھا۔


