ویب ڈیسک (ایم این این) – اقوام متحدہ نے اتوار کو طالبان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان خواتین کے اقامتی و دفتری پابندیوں کو فوری طور پر ختم کریں، کیونکہ یہ قدغن زندگی بچانے والی خدمات کو شدید خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔
طالبان کے 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان خواتین پر اسکول میں بارہ سال سے آگے پڑھنے، پارکوں اور بیوٹی سیلون جانے، اور بیشتر ملازمتوں پر کام کرنے پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔
گزشتہ ستمبر میں طالبان حکام نے مزید سختی کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں کام کرنے والی افغان خواتین کو دفاتر میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
افغانستان میں یو این ویمن کی نمائندہ سوزن فرگوسن نے اپنے بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ طالبان سے مطالبہ کرتا ہے کہ خواتین عملے اور کنٹریکٹرز پر لگائی گئی پابندی واپس لی جائے تاکہ انہیں دفاتر اور فیلڈ تک محفوظ رسائی حاصل ہو سکے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پابندی برقرار رہنے سے اہم اور زندگی بچانے والے کاموں پر منفی اثرات پڑیں گے، اور یہ انسانی حقوق و مساوات کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
بیان میں متاثرہ خواتین کی درست تعداد نہیں بتائی گئی، لیکن اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق کئی سو خواتین اس پابندی سے متاثر ہیں۔
گزشتہ تین ماہ سے خواتین عملہ دور سے کام کرنے پر مجبور ہے اور زلزلہ متاثرین سمیت پاکستان اور ایران سے واپس آنے والے افغان مہاجرین کی مدد کر رہا ہے۔
فرگوسن نے کہا کہ خواتین تک محفوظ رسائی اور ثقافتی طور پر موزوں معاونت فراہم کرنے کے لیے خواتین اسٹاف کی موجودگی ناگزیر ہے۔
طالبان حکام نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ ستمبر میں یو این ایچ سی آر نے واپس آنے والے افغان مہاجرین کے لیے نقد امداد کا پروگرام اس لیے معطل کر دیا تھا کہ وہ خواتین کی بڑی تعداد سے براہ راست انٹرویو اور معلومات جمع نہیں کر پا رہے تھے۔


