ویب ڈیسک (ایم این این) – افغانستان سے 2021 میں امریکی انخلا کے دوران چھوڑے گئے اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار، فوجی آلات اور سکیورٹی تنصیبات اب طالبان کی سکیورٹی مشینری کی بنیاد بن چکے ہیں، امریکی نگران ادارے SIGAR کی حتمی رپورٹ میں اس کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹس اور واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقات نے بھی انکشاف کیا ہے کہ یہی اسلحہ اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) تک پہنچ چکا ہے، جس سے پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں ملوث گروہ مزید مضبوط ہوا ہے۔
137 صفحات پر مشتمل SIGAR کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو کیلئے کتنی بڑی سرمایہ کاری کی۔ کانگریس نے 2002 سے 2021 تک تقریباً 144.7 ارب ڈالر خرچ کیے، مگر نہ استحکام آیا، نہ جمہوری ڈھانچہ مضبوط ہو سکا۔
اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹس خطرناک علاقائی اثرات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یو این پینل کے مطابق افغان طالبان مسلسل ٹی ٹی پی کو لاجسٹک اور آپریشنل سپورٹ فراہم کر رہے ہیں، جبکہ واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان میں پکڑے گئے درجنوں امریکی ساختہ ہتھیاروں کی نشاندہی کی ہے جو دہشتگردوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں۔
SIGAR کے مطابق طالبان کے قبضے کے بعد ادارہ افغان فورسز کو فراہم کردہ سامان یا تعمیر کردہ تنصیبات کی نگرانی سے محروم ہو گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا: “طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد SIGAR کسی بھی فراہم کردہ ساز و سامان یا تعمیر شدہ تنصیبات کا معائنہ نہیں کر سکا۔”
امریکی محکمہ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ تقریباً 7.1 ارب ڈالر مالیت کا فوجی ساز و سامان افغانستان میں رہ گیا — جن میں ہزاروں گاڑیاں، لاکھوں ہتھیار، نائٹ وژن ڈیوائسز اور 160 سے زائد طیارے شامل ہیں۔
پاکستان میں اس کے اثرات واضح ہوچکے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان میں قبضے میں لیے گئے کم از کم 63 ہتھیاروں کے سیریل نمبر ان ہتھیاروں سے ملتے ہیں جو امریکہ نے افغان فورسز کو دیے تھے۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ رائفلیں اور کاربائنز “ٹی ٹی پی کے پہلے استعمال شدہ اسلحے سے کہیں زیادہ جدید” ہیں۔
یو این مانیٹرنگ رپورٹ (2025) کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریباً 6,000 جنگجو افغانستان کے مختلف صوبوں میں سرگرم ہیں اور القاعدہ کے ساتھ تربیتی مراکز بھی شیئر کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ڈنمارک کی نائب مستقل نمائندہ ساندرا جینسن لینڈی نے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کو “کابل کی ڈی فیکٹو حکومت سے مسلسل لاجسٹک اور عملی مدد مل رہی ہے۔”
اقوام متحدہ کی سابقہ رپورٹس میں طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کو دیے گئے گیسٹ ہاؤسز، اسلحہ لائسنس، نقل و حرکت کی اجازت اور گرفتاری سے استثنیٰ کا ذکر کیا گیا ہے — جو تنظیم کو افغان سرزمین پر مزید مضبوط ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ SIGAR کی 2025 کی رپورٹس میں پاک فوج کے اہلکاروں کی شہادتوں سمیت متعدد سرحد پار حملوں کی تفصیل موجود ہے۔
حتمی رپورٹ میں افغانستان کے سیکورٹی ڈھانچے پر امریکی سرمایہ کاری کے بڑے پیمانے اور ناکامی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ 2002 سے 2025 تک امریکہ نے افغان فورسز کیلئے 31.2 ارب ڈالر مالیت کا ساز و سامان، گاڑیاں، تنصیبات اور طیارے فراہم کیے — جن میں 96,000 زمینی گاڑیاں، 427,000 ہتھیار، 17,400 نائٹ وژن ڈیوائسز اور 162 طیارے شامل ہیں۔ جولائی 2021 میں افغان فضائیہ کے پاس 131 امریکی طیارے موجود تھے — جو اب تقریباً مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہیں۔
مزید 11.5 ارب ڈالر افغانستان بھر میں فوجی اڈوں، ہیڈکوارٹرز اور تربیتی مراکز کی تعمیر پر خرچ ہوئے — جو اب طالبان کے زیر کنٹرول ہیں یا امریکی اداروں کیلئے ناقابلِ رسائی۔
SIGAR کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی منصوبہ ابتدا ہی سے غلط مفروضوں اور بدعنوان طاقتور شخصیات پر انحصار جیسے عوامل سے ناکام ہوتا گیا، جس سے نظام کمزور ہوا، بدعنوانی بڑھی اور بغاوت کو تقویت ملی۔ رپورٹ کے مطابق 26 سے 29.2 ارب ڈالر ضائع ہوئے یا بدعنوانی کی نذر ہوگئے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ انسانی نقصان سب سے زیادہ ہوا — ہزاروں افغان، اور 2,450 سے زائد امریکی اہلکار جان گنوا بیٹھے — اور آخرکار طالبان وہی امریکی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں جو افغان فوج کے لیے خریدا گیا تھا۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے باوجود امریکہ افغانستان کا سب سے بڑا ڈونر ہے، جو اگست 2021 سے اب تک 3.83 ارب ڈالر سے زائد امداد فراہم کر چکا ہے۔
اپنی دو دہائیوں کی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد SIGAR نے اپنی آخری رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ افغانستان کا تجربہ کمزور ریاستوں کی تعمیر نو کے کسی بھی مستقبل کے منصوبے کیلئے سخت تنبیہ ہے — ایک ایسی ناکامی جس کے اثرات اب پورے خطے کی سلامتی کو متاثر کر رہے ہیں۔


