راولپنڈی (ایم این این) – خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی کو جمعرات کو ایک بار پھر اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔
جیل انتظامیہ کی جانب سے یہ دسویں مرتبہ ملاقات کی درخواست مسترد کی گئی ہے، جبکہ دوسری جانب اڈیالہ جیل کے باہر جاری دھرنوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندر اختلافات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
بدھ کے روز سیاسی درجہ حرارت اس وقت مزید بڑھ گیا جب راولپنڈی پولیس نے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر کے قانونی پہلوؤں پر رائے مانگی۔
اسی دوران پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں استحقاق کی تحریک جمع کراتے ہوئے کارکنوں پر مبینہ پولیس تشدد کی مذمت کی اور عمران خان کی ممکنہ جیل منتقلی سے متعلق گردش کرتی اطلاعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے خبردار کیا ہے کہ عمران خان کو سیاسی عمل سے باہر کرنے یا پرامن احتجاج کو دبانے کی کوششیں ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔
پارٹی کے اندر دھرنوں کے معاملے پر دو رائے پائی جا رہی ہیں۔ ایک گروہ سمجھتا ہے کہ مسلسل دھرنے حکومت پر دباؤ بڑھائیں گے، جب کہ دوسرا گروہ علامتی احتجاج کے بعد منتشر ہونے کے حق میں ہے تاکہ حکومت کو کسی قسم کا بہانہ نہ مل سکے کہ حالات بگاڑ کر عمران خان کو کسی دوسری جیل منتقل کیا جائے۔
ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ پنجاب سے پارٹی کارکن باقاعدگی سے جیل کے باہر پہنچتے ہیں، جبکہ وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا اکثر کم لوگوں کے ساتھ آتے ہیں۔ ان کے مطابق پنجاب کے رہنماؤں کو طویل سفری اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی پنجاب سے شرکت زیادہ رہی ہے۔
بعض رہنماؤں نے کہا کہ چونکہ جیل حکام ملاقات کی اجازت نہیں دے رہے، اس لیے کارکنوں کی توانائی اہم موقع کے لیے بچائی جائے۔ ایک رکنِ قومی اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ جب سے علیمہ خانم نے سوشل میڈیا کی ذمہ داری سنبھالی ہے، حقیقت پسندی پر مبنی رائے دینے والوں کو آن لائن تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ غیر ضمانتی وارنٹ کے باوجود علیمہ کو گرفتار نہیں کیا جا رہا، جبکہ کارکنوں کو پکڑا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب علیمہ خانم نے حالیہ دھرنا دیا تو بیس کے قریب پارٹی گاڑیوں کو نقصان پہنچا اور کئی گاڑیوں کی چابیاں پولیس نے ضبط کر لیں جس کے باعث پارٹی رہنما واپس بھی نہ جا سکے۔
رہنماؤں نے بتایا کہ ماضی میں مشال یوسفزئی نے عمران خان اور بشریٰ بی بی سے ملاقات کے بعد پیغام دیا تھا کہ اڈیالہ جیل کے باہر دھرنے ختم کر کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر احتجاج کیا جائے، لیکن بعد میں علیمہ خانم نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا، جس کے بعد دوبارہ جیل کے باہر دھرنے شروع ہو گئے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے تصدیق کی کہ پارٹی نے پہلے دھرنے روکنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن بعد ازاں علیمہ خانم کے اعلان کے بعد ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے دوبارہ احتجاج شروع کر دیا۔ سابق اسپیکر اسد قیصر نے پارٹی میں اختلافات کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام فیصلے محمود خان اچکزئی کی قیادت میں کیے جائیں گے۔
جمعرات کو وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی اڈیالہ جیل پہنچے تو پولیس نے انہیں بتایا کہ ملاقات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ ایک منتخب وزیرِاعلیٰ کو اپنی پارٹی کے چیئرمین سے ملنے نہیں دیا جا رہا، حالانکہ عدالت نے ملاقات کی اجازت دے رکھی ہے۔
انہوں نے عمران خان کی بہنوں پر پانی کی توپیں چلانے کی بھی مذمت کی اور سوال اٹھایا کہ کیا خیبر پختونخوا کو ملک کا حصہ نہیں سمجھا جا رہا؟ انہوں نے خبردار کیا کہ وفاقی اور پنجاب حکومت کو اس کے سیاسی نتائج بھگتنا ہوں گے۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ پچھلے تین برسوں سے عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن وہ ناکام رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے حکومت کو محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ عمران خان نے انہی کو اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔


