اسلام آباد (ایم این این): قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیوں کو بدھ کے روز بتایا گیا کہ رواں سال مختلف پاکستانی ہوائی اڈوں پر 51 ہزار مسافروں کو امیگریشن کلیئرنس نہ ملنے پر آف لوڈ کیا گیا، جن میں سب سے زیادہ تعداد لاہور اور کراچی ایئرپورٹس پر سامنے آئی۔
یہ بریفنگ کمیٹی کے چیئرمین آغا رفیع اللہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے دوران دی گئی۔ حکام کے مطابق یہ کارروائیاں 2024 کے یونان کشتی حادثے کے بعد انسانی اسمگلنگ کے خلاف شروع کی گئی کریک ڈاؤن کا نتیجہ ہیں، جس میں کئی پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بین الاقوامی پروازوں سے مسافروں کی بار بار آف لوڈنگ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، کیونکہ متعدد مسافروں نے درست سفری دستاویزات کے باوجود آف لوڈ کیے جانے کی شکایات کی تھیں۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار راجہ نے کمیٹی کو بتایا کہ مسافروں کو دستاویزات کی جانچ، ڈیٹا ویریفکیشن اور آن لائن تصدیق کے بعد روکا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال 66 ہزار مسافروں کو آف لوڈ کیا گیا، جن میں سے 51 ہزار کو ایف آئی اے نے ناکافی یا غیر مصدقہ دستاویزات کی بنیاد پر روکا۔
ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق کئی مسافروں کے پاس بیرون ملک تعلیم، یونیورسٹیوں یا ملازمت سے متعلق مکمل معلومات موجود نہیں تھیں۔ متعدد کیسز میں مسافر ایجنٹس کے ذریعے غلط یا نامکمل معلومات کے ساتھ سفر کی کوشش کرتے پائے گئے۔
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کرپشن میں ملوث ایف آئی اے کے 180 اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے، جبکہ تمام بڑے ہوائی اڈوں کو نادرا کے آن لائن ڈیٹا بیس سے منسلک کر دیا گیا ہے تاکہ امیگریشن کنٹرول مزید مؤثر بنایا جا سکے۔
رفعت مختار راجہ نے واضح کیا کہ کسی بھی مسافر کو سیاسی دباؤ یا وی آئی پی سفارش پر کلیئر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہوائی اڈوں پر امیگریشن کاؤنٹرز پر کیمرے نصب کر دیے گئے ہیں اور نگرانی کنٹرول ہیڈکوارٹرز سے کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مشکوک کیسز کی پیشگی نشاندہی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
زیادہ تر آف لوڈ کیے گئے مسافر وزٹ، عمرہ اور ورک ویزا کیٹیگریز سے تعلق رکھتے تھے۔ رواں سال 85 لاکھ پاکستانی بیرون ملک سفر کر چکے ہیں، جبکہ مختلف نوعیت کے 226 مقدمات درج کیے گئے۔
ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ گزشتہ تین ماہ میں ایران میں غیر قانونی داخلے کی کوشش کے دوران 450 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ چند بنگلہ دیشی شہری بھی پاکستانی سیاحتی ویزوں پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جعلی دستاویزات کے استعمال پر گزشتہ سال 287 جبکہ رواں سال 170 افراد کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ اس کے علاوہ رواں سال سعودی عرب سے بھیک مانگنے کے الزامات میں 24 ہزار پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔
ادھر وزارتِ اوورسیز پاکستانیوں کے سیکریٹری ندیم اسلم چوہدری نے کمیٹی کو بتایا کہ سعودی عرب میں وژن 2030 کے تحت ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جس سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہنر مند افرادی قوت کی بہتر تربیت کی جائے تو پاکستان ان مواقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال 4 لاکھ 51 ہزار پاکستانی سعودی عرب گئے، جبکہ رواں سال اب تک 5 لاکھ سے زائد پاکستانی وہاں بھیجے جا چکے ہیں۔
کمیٹی کے چیئرمین آغا رفیع اللہ نے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ مؤثر طریقے سے کام نہیں کر رہا اور مسائل کا مستقل حل تلاش نہیں کیا جا رہا۔
کمیٹی رکن محمد الیاس چوہدری نے بیرون ملک تعینات کمیونٹی ویلفیئر اتاشیوں کو ڈرائیور فراہم کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ گریڈ 17 اور 18 کے افسران کو یورپ میں ڈرائیور دینا اخراجات میں غیر ضروری اضافہ ہے۔
اس سے قبل وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ مکمل اور درست سفری دستاویزات رکھنے والے کسی بھی مسافر کو سفر سے نہیں روکا جا رہا، تاہم نامکمل یا جعلی کاغذات رکھنے والوں کو ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی بدنامی کا سبب بننے والے افراد کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نومبر میں ایف آئی اے نے وضاحت کی تھی کہ مسافروں کو صرف اسی صورت آف لوڈ کیا جاتا ہے جب ان کے پاس درست دستاویزات نہ ہوں یا وہ انسانی اسمگلرز سے منسلک پائے جائیں، جبکہ آف لوڈنگ سے متعلق جھوٹی معلومات پھیلانے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی شروع کی گئی ہے۔


