ویب ڈیسک (ایم این این): تاجکستان نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان سے غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے تین مسلح افراد کو سرحدی فورسز کے ساتھ جھڑپ کے دوران ہلاک کر دیا گیا، جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں دو تاجک اہلکار بھی جان سے گئے۔ واقعے کے بعد دوشنبے نے افغان طالبان حکام سے معافی اور سرحدی سیکیورٹی کو مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تاجک حکام کے مطابق یہ واقعہ 23 دسمبر کی رات اس وقت پیش آیا جب ایک دہشت گرد گروہ کے تین افراد افغانستان سے تاجکستان میں داخل ہوئے۔ دراندازی شمس الدین شوہین ضلع کے قواق علاقے میں بارڈر آؤٹ پوسٹ نمبر 5 کے قریب ہوئی۔
تاجک سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سرحدی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کیا اور اگلی صبح گروہ کا سراغ لگا لیا۔ اسٹیٹ کمیٹی برائے قومی سلامتی نے بتایا کہ مشتبہ افراد نے ہتھیار ڈالنے کے احکامات کو نظرانداز کیا اور فائرنگ شروع کر دی، جس کے بعد مسلح جھڑپ ہوئی۔
بیان میں کہا گیا کہ آپریشن کے دوران تینوں دراندازوں کو ہلاک کر دیا گیا، جبکہ وہ ایک فوجی چوکی پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
موقع سے اسلحے کا بڑا ذخیرہ برآمد ہوا، جس میں ایم-16 رائفل، کلاشنکوف، سائلنسر لگے پستول، دستی بم، نائٹ وژن ڈیوائس اور دھماکہ خیز مواد شامل تھا۔
فائرنگ کے تبادلے میں تاجک بارڈر فورس کے دو اہلکار شہید ہو گئے، جن کی شناخت ناوروزبیکوف زیرہ بون نغزیبیکووچ اور قربانوف اسمات اللہ غلامووچ کے نام سے ہوئی۔
تاجک حکام نے واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے افغان طالبان حکومت کو سرحد پار حملوں کو روکنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
حکام کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران تاجک-افغان سرحد پر یہ تیسرا ایسا واقعہ ہے، جس میں شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
اپنے بیان میں تاجکستان نے کہا کہ ایسے واقعات کابل کی جانب سے سرحدی تحفظ اور شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی سے متعلق بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔
دوشنبے نے طالبان قیادت سے باضابطہ طور پر تاجک عوام سے معافی مانگنے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ افغان میڈیا کے مطابق بدھ تک طالبان حکام کی جانب سے اس معاملے پر کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔


