کوالالمپور (ایم این این) — ملائیشیا کے سابق وزیرِ اعظم نجیب رزاق کو بدعنوانی سے متعلق 1ایم ڈی بی اسکینڈل کے ایک بڑے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے 15 سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
کوالالمپور ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز نجیب رزاق کو منی لانڈرنگ کے 21 اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے چار الزامات میں قصوروار ٹھہرایا۔ یہ مقدمہ 1ایم ڈی بی کے سرکاری خودمختار فنڈ سے 2.2 ارب ملائیشین رنگٹ، یعنی تقریباً 54 کروڑ ڈالر، کی غیر قانونی منتقلی سے متعلق تھا جو نجیب کے ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے۔
فیصلہ سناتے ہوئے جج کولن لارنس سیکیرہ نے نجیب کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ مقدمہ سیاسی انتقام پر مبنی ہے۔ جج کے مطابق ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ نجیب نے اپنے بااختیار عہدوں کا غلط استعمال کیا۔
استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا کہ نجیب نے وزیرِ اعظم، وزیرِ خزانہ اور 1ایم ڈی بی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے سرکاری وسائل کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ عدالت نے اختیارات کے ناجائز استعمال پر ہر الزام کے تحت 15 سال اور منی لانڈرنگ کے ہر الزام پر پانچ سال قید کی سزا سنائی، تاہم تمام سزائیں بیک وقت چلیں گی۔
واضح رہے کہ نجیب رزاق کو 2020 میں بھی 1ایم ڈی بی سے متعلق ایک اور مقدمے میں تقریباً ایک کروڑ ڈالر کی خردبرد پر 12 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جسے بعد میں کم کر کے چھ سال کر دیا گیا تھا۔
یہ تازہ مقدمہ اب تک کا سب سے اہم سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اس میں براہِ راست 1ایم ڈی بی کے مرکزی ادارے اور بھاری مالی رقوم شامل تھیں۔ مقدمے کی سماعت سات سال تک جاری رہی، جس دوران 76 گواہوں نے عدالت میں بیان دیا۔
نجیب نے دورانِ سماعت مؤقف اختیار کیا کہ انہیں مفرور تاجر جو لو نے گمراہ کیا، جو 2016 سے انٹرپول کو مطلوب ہے۔ تاہم عدالت نے شواہد کی بنیاد پر قرار دیا کہ نجیب اور جو لو کے درمیان قریبی تعلق تھا اور جو لو ان کے لیے بطور نمائندہ کام کرتا رہا۔
عدالت نے یہ مؤقف بھی مسترد کر دیا کہ نجیب کو رقوم سعودی شاہی خاندان کی جانب سے عطیات کے طور پر ملیں، اور کہا کہ وہ ایک تجربہ کار سیاست دان تھے جو معاملات سے لاعلم ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
1ایم ڈی بی اسکینڈل 2015 میں منظرِ عام پر آیا تھا اور اسے ملائیشیا کی سیاست میں ایک اہم موڑ قرار دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں 2018 میں یو ایم این او کی دہائیوں پر محیط حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے کے ملائیشیا کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور یہ عدلیہ کی خودمختاری اور احتساب کے عمل کا ایک بڑا امتحان ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب مزید اپیلیں متوقع ہیں۔


