اسلام آباد (ایم این این): اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد آصف کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک باضابطہ شکایت دائر کر دی گئی ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے متعلق ہٹ اینڈ رن کیس میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔
شکایت ایڈووکیٹ انعام الرحمٰن کی جانب سے 25 دسمبر کو جمع کرائی گئی، جس کے مطابق 2 دسمبر کو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے قریب ایک تیز رفتار کالی ایس یو وی نے اسکوٹر پر سوار دو لڑکیوں کو ٹکر ماری، جس کے نتیجے میں دونوں موقع پر جاں بحق ہو گئیں۔ گاڑی مبینہ طور پر جسٹس آصف کے بیٹے کے زیرِ استعمال تھی۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ جسٹس آصف واقعے کے فوراً بعد جائے وقوعہ پر پہنچے اور متاثرہ لڑکیوں کو طبی امداد دلوانے کے بجائے اپنے بیٹے اور اس کے دوستوں کو تحفظ فراہم کرنے کو ترجیح دی۔ درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اگر بروقت مدد کی جاتی تو ایک جان بچائی جا سکتی تھی۔
شکایت کے مطابق ریاستی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مقتولین کے ورثا پر دباؤ ڈالا گیا اور 6 دسمبر کو خفیہ انداز میں، عدالتی اوقات کے بعد ان کیمرہ کارروائی کے ذریعے صلح کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، جس کے نتیجے میں ملزم کو ضمانت مل گئی۔
درخواست میں کہا گیا کہ تمام قانونی ورثا کے بیانات ریکارڈ نہیں کیے گئے، جبکہ ایک مقتولہ کی والدہ کا بیان سرے سے شامل ہی نہیں کیا گیا۔ شکایت میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 322 کے تحت قتل بالسبب کا مقدمہ صرف قانون اور شریعت کے مطابق دیت کی ادائیگی پر ہی نمٹایا جا سکتا ہے۔
ایڈووکیٹ انعام الرحمٰن نے الزام لگایا کہ دباؤ اور غیر شفاف طریقوں کے ذریعے صلح کرائی گئی، جو ایک عوامی عہدے پر فائز شخص کے شایانِ شان نہیں اور ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جج سے اعلیٰ کردار، ہمدردی اور قانون کی پاسداری کی توقع کی جاتی ہے، جو اس معاملے میں پوری نہیں کی گئی۔
شکایت میں مزید کہا گیا کہ جسٹس آصف نے ذاتی فائدے کے لیے عدالتی آزادی کو نقصان پہنچایا، عوامی سطح پر الزامات کے باعث وہ ضابطۂ اخلاق کے تحت بے داغ رہنے کی شرط پر پورا نہیں اترتے اور اس کے باوجود مستعفی نہیں ہوئے۔
درخواست گزار نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ الزامات کی مکمل انکوائری کی جائے اور رپورٹ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو بھجوائی جائے۔ سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت اعلیٰ عدالتی احتساب کا فورم ہے۔
شکایت میں 2022 کے ایک ایسے ہی واقعے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جس میں ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کی صاحبزادی کے خلاف ہٹ اینڈ رن کیس سامنے آیا تھا، جس سے بااثر افراد کے خلاف قانون کے یکساں نفاذ پر سوالات اٹھے تھے۔


