کراچی میں خودکش حملے کا منصوبہ ناکام، کمسن بلوچ بچی شدت پسندوں سے بازیاب

0
2

کراچی (ایم این این) – قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں خودکش حملے کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے ایک کمسن بلوچ بچی کو بازیاب کرا لیا جسے کالعدم شدت پسند تنظیمیں خودکش کارروائی کے لیے تیار کر رہی تھیں۔ یہ بات سندھ کے وزیر داخلہ ضیاء الحسن لانجر نے پیر کو بتائی۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی آزاد خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ فتنہ الہندوستان سے وابستہ شدت پسند عناصر بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے ذہنوں کو انتہاپسندی کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ سے منسلک ایک نیٹ ورک نے کمسن بچی کو گمراہ کر کے خودکش حملے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم بروقت کارروائی سے نہ صرف بچی کی جان بچائی گئی بلکہ کراچی میں ایک بڑے سانحے کو بھی روکا گیا۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ کے مطابق بچی کو 25 دسمبر کی رات ایک حساس انٹیلی جنس بنیادوں پر ہونے والے آپریشن کے دوران حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور شدت پسند مواد کے ذریعے اس کی سوچ کو آہستہ آہستہ متاثر کیا جا رہا تھا۔

حکام کے مطابق بچی اپنی والدہ کی لاعلمی میں موبائل فون استعمال کر رہی تھی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شدت پسندوں نے ہمدردی کے لبادے میں اس سے رابطہ کیا اور بعد ازاں حملے پر اکسانے کی کوشش کی۔

بچی کو دھوکے سے کراچی بلایا گیا، تاہم پولیس چیک پوسٹوں پر سخت سیکیورٹی کے باعث ہینڈلر اسے مطلوبہ مقام تک منتقل نہ کر سکا اور یوں منصوبہ بے نقاب ہو گیا۔

تفتیش کے دوران بچی نے نیٹ ورک، رابطوں اور طریقہ کار سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔ کم عمری کے باعث اس کے اہل خانہ کو فوری طور پر مطلع کیا گیا، شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھی گئی اور بچی کو مکمل تحفظ اور عزت کے ساتھ خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔

پریس کانفرنس میں بچی اور اس کی والدہ کے آڈیو بیانات بھی سنائے گئے، جن میں بچی نے بتایا کہ ابتدا میں اسے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد دکھایا گیا، جو وقت کے ساتھ بڑھتا گیا اور خودکش حملوں کو بہادری کے عمل کے طور پر پیش کیا گیا۔

بچی نے کہا کہ والد کے انتقال کے بعد اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا گیا، تاہم اب اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ اسے تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا تھا۔ اس نے زور دیا کہ بلوچ روایات میں خواتین کا احترام سکھایا جاتا ہے اور خواتین یا بچیوں کی قربانی بلوچ ثقافت کا حصہ نہیں۔

اس کی والدہ نے کہا کہ وہ عوامی مفاد میں یہ باتیں سامنے لا رہی ہیں تاکہ کوئی اور بچی اس جال میں نہ پھنسے، اور ریاست نے ان کی بیٹی کی جان، عزت اور مستقبل کو ایک ماں کی طرح محفوظ بنایا۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مطالبہ کیا کہ شدت پسند مواد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور والدین کو بھی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی تلقین کی۔

وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کالعدم تنظیمیں خواتین اور کمسن بچیوں کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں، جبکہ خودکش حملوں کا اسلام، انسانیت اور بلوچ روایات سے کوئی تعلق نہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں