پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے بدھ کے روز کہا کہ اگر افغانستان کے ساتھ کشیدگی دوبارہ بڑھتی ہے تو ان کی جماعت مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں شدید تناؤ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے دوران سرحدی جھڑپیں، بیانات اور الزامات کا تبادلہ ہوا۔ یہ کشیدگی 11 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب افغانستان کی جانب سے پاکستان پر حملہ کیا گیا، جس کے بعد افغان طالبان نے پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام عائد کیا۔ اسلام آباد نے اس الزام کی نہ تصدیق کی اور نہ تردید۔
جیو نیوز کے پروگرام ‘کیپیٹل ٹاک’ میں گفتگو کرتے ہوئے گوہر علی خان نے کہا، “اگر افغانستان کے ساتھ دشمنی دوبارہ شروع ہوئی تو پی ٹی آئی پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگی، جیسے ہم بھارت کے ساتھ مختصر جنگ کے دوران کھڑے ہوئے تھے۔ افغانستان کا معاملہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔”
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات قائم رکھنے چاہئیں۔ “پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن سے رہے۔”
افغان صورتحال پر بات کرتے ہوئے گوہر علی خان نے کہا، “جس کا زیادہ مفاد داؤ پر ہو، اسے ہر ممکن راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمارا بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہے، اس لیے اگر افغانستان بات چیت پر آمادہ ہے تو ہمیں ہر ممکن سفارتی راستہ اپنانا چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال سنگین ہے کیونکہ طالبان پورے ملک پر مکمل کنٹرول نہیں رکھتے۔ “اگر افغان طالبان نے پاکستان پر حملہ کیا تو جواب بھارت جیسا ہی ہوگا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بات چیت رک جائے۔ مکالمہ ہر حال میں جاری رہنا چاہیے، اور پاکستان کے دوست ممالک کو اپنے اثر و رسوخ سے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہیے۔”
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن افغانستان کو بھی یہی حق حاصل ہے۔ “ہمیں بطور ہمسایہ ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا۔”
اسلام آباد طویل عرصے سے افغان طالبان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکیں، تاہم طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ دریں اثنا، پاکستان دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سامنا کر رہا ہے، اور حالیہ دنوں میں متعدد سیکیورٹی اہلکار دہشت گرد حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ 11 اکتوبر کی جھڑپ کے بعد کئی بار سرحدی جھڑپیں ہوئیں، جبکہ پاکستان کے جوابی حملوں میں افغانستان میں گلبہادر گروپ کے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔


