پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی آزاد جموں و کشمیر کے سیاسی بحران کے حل کے لیے پرعزم ہے، کیونکہ یہ جماعت ہمیشہ سے مسائل کے سیاسی حل تلاش کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی اب کشمیر میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ 53 رکنی اسمبلی میں پارٹی کے ارکان کی تعداد 27 ہو چکی ہے، جن میں سے دس وہ ہیں جو 2021 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور اب پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔
بلاول نے کہا کہ “پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت ہے اور کشمیری عوام کے مسائل کے حل، ان کی امیدوں اور خوابوں کی تکمیل کے لیے پُرعزم ہے۔”
انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون ساز اسمبلی پیپلز پارٹی کے لیے اگلے انتخابات تک ایک “امتحان” ہے۔ “پیپلز پارٹی کی بنیاد مسئلہ کشمیر کے نام پر رکھی گئی تھی، اور تین نسلوں کے قائدین نے اس مقصد کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر جدوجہد کی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ “ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات کے حالات کیا تھے، اس وقت خان صاحب کی حکومت تھی، اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی واضح تھا۔ پیپلز پارٹی نے وہ انتخاب جیتا تھا، مگر راتوں رات فتح چھین لی گئی، یہی اسکرپٹ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی دہرایا گیا۔”
بلاول بھٹو نے افسوس کا اظہار کیا کہ “غیر سیاسی رویوں” نے آزاد کشمیر میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے جس کا نقصان عوام کو ہو رہا ہے اور جو عالمی سطح پر کشمیر کے مؤقف کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو کشمیر کی نمائندگی پاکستان کے اندر اور دنیا بھر میں کر سکتی ہے۔” بلاول نے کسی بھی سازش کے مقابلے میں “منہ توڑ جواب” دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: “میں کشمیری عوام سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔”
ادھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے خلاف مشترکہ تحریکِ عدم اعتماد تیار کر لی گئی ہے، تاہم پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار کا اعلان ابھی نہیں کیا۔
ذرائع کے مطابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے، اور امکان ہے کہ آج پارٹی کے آزاد کشمیر پارلیمانی اجلاس کے بعد امیدوار کا اعلان کیا جائے گا۔
اسی ہفتے پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور مشیرِ وزیراعظم رانا ثناءاللہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ موجودہ حکومت “حل کے بجائے بحران پیدا کرنے کا باعث بن چکی ہے”، اور اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اتفاق رائے سے تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب، آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق، جو پہلے مستعفی ہونے پر غور کر رہے تھے، نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ عہدے پر برقرار رہیں گے اور تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کریں گے۔


