اسلام آباد: حکومت سولر نیٹ میٹرنگ کے تحت بجلی خریداری کی شرح میں بڑی کمی پر غور کر رہی ہے، جس کے تحت موجودہ 22 روپے فی یونٹ کے بجائے تقریباً 11.30 روپے فی یونٹ ادا کیے جائیں گے۔ یہ فیصلہ اس وقت زیر غور آیا ہے جب سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ نیٹ میٹرنگ اسکیم روایتی صارفین پر مالی بوجھ ڈال رہی ہے۔
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، گھریلو اور کمرشل سطح پر سولر سسٹمز کے تیزی سے پھیلاؤ کے باعث مالی سال 2024 میں بجلی کے گرڈ سے 3.2 ارب یونٹس کی فروخت میں کمی واقع ہوئی، جس سے تقسیم کار کمپنیوں کو تقریباً 101 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس نقصان کے باعث دیگر صارفین کے لیے اوسط ٹیرف میں 0.9 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا۔
پاور ڈویژن کی پیشگوئی ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو مالی سال 2034 تک یہ نقصان 18.8 ارب یونٹس تک پہنچ سکتا ہے، جس سے 545 ارب روپے کا مالی اثر اور بجلی کے نرخوں میں 5 سے 6 روپے فی یونٹ تک اضافے کا خدشہ ہے۔
وزیراعظم نے 22 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں پاور ڈویژن اور نیپرا کو ہدایت کی کہ وہ نیٹ میٹرنگ کے ریٹ اور اس کے اثرات کا ازسرنو جائزہ لیں۔ ایک توانائی عہدیدار کے مطابق، “سولر صارفین گرڈ کو بیٹری کی طرح استعمال کر رہے ہیں، اضافی بجلی 22 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر فروخت کر کے جبکہ فکسڈ چارجز ادا نہیں کرتے، جس کا بوجھ باقی صارفین پر پڑتا ہے۔”
حکام کے مطابق، نئی سولر پلانٹس کی لاگت 10 روپے فی یونٹ سے بھی کم ہے، اس لیے موجودہ ریٹ غیر متوازن اور غیر پائیدار ہے۔ مجوزہ نیا ریٹ 11.30 روپے فی یونٹ تجویز کیا گیا ہے تاکہ بجلی کے نرخ حقیقی معاشی حالات کے مطابق بنائے جا سکیں۔
رپورٹ کے مطابق، ملک میں نیٹ میٹرنگ کے تحت سولر پیداوار کی گنجائش 6,000 میگاواٹ سے تجاوز کر چکی ہے، تاہم ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ موسمِ سرما میں طلب میں کمی کے باعث دن کے اوقات میں اضافی بجلی پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جو گرڈ کے انتظامی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔


