وفاقی حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم متعارف کرانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی ٹیم کو ہدایت دی ہے کہ اس اہم آئینی ترمیم کے حوالے سے تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے ابتدائی مشاورت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ مکمل کر لی ہے، جبکہ اب باضابطہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سے بھی رابطے کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم کا ابتدائی ڈھانچہ تیار کر لیا گیا ہے جس میں آرٹیکل 243 میں تبدیلی، بعض تعلیمی معاملات کو دوبارہ وفاق کے دائرہ کار میں لانے، اور ایک آئینی عدالت کے قیام کی تجاویز شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن اور نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ سے متعلق شقوں میں بھی ردوبدل زیر غور ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مجوزہ ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام عدلیہ کی خودمختاری ختم کرنے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد قیصر نے کہا کہ ان کی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے آئین کی بحالی اور این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے مذاکرات پر تیار ہے، تاہم آئینی عدالت کے قیام کی مخالفت کرتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر این ایف سی ایوارڈ میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ملک میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے، کیونکہ چھوٹے صوبے پہلے ہی اپنے حصے کی کمی پر شکایات کر رہے ہیں۔
انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر سے اپیل کی کہ وہ اپوزیشن لیڈر کا اعلان کریں اور غیر جانبدار رہیں۔ پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا ہے، جو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ ہیں۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ وفاقی وزرا آئینی ترمیم سے متعلق "جھوٹ بول رہے ہیں”، اور اگر حکومت کوئی ترمیم لانا چاہتی ہے تو اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم صدر کے اختیارات اور این ایف سی ایوارڈ میں ردوبدل کی کوشش ہے۔
پیپلز پارٹی، جو 18ویں آئینی ترمیم کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتی ہے، نے تاحال 27ویں ترمیم پر اپنا حتمی مؤقف ظاہر نہیں کیا۔


