اسلام آباد — نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے منگل کو اعلان کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ترمیمی عمل شفاف اور آئینی اصولوں کے مطابق ہوگا۔
سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا، “حکومت یہ ترمیم لا رہی ہے، اور ضرور لائے گی۔ 27ویں آئینی ترمیم جلد آئے گی، اور اسے قانون و آئین کے مطابق پیش کیا جائے گا۔”
یہ اعلان ایک روز بعد سامنے آیا جب پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے مجوزہ ترامیم کے لیے ان کی حمایت مانگی ہے، جس کے بعد ملک بھر میں سیاسی بحث چھڑ گئی۔
مجوزہ ترمیم پر مختلف سیاسی جماعتوں نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ یہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو حاصل اختیارات کو محدود کر سکتی ہے۔ اپوزیشن جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ اس ترمیم کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ حکومت نے پیپلز پارٹی سمیت تمام اہم اتحادی جماعتوں سے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔ “میں کم از کم تین بار ملاقاتیں کر چکا ہوں اور وزیر قانون نے بھی بات چیت کی ہے،” انہوں نے کہا۔ “ترمیم پیش کرنے سے پہلے تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔”
انہوں نے پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کو یقین دلایا کہ ترمیم کو جلد بازی میں پیش نہیں کیا جائے گا۔ “ایسا نہیں ہوگا کہ ترمیم لائی جائے اور فوراً ووٹنگ ہو جائے، تمام مراحل بشمول پارلیمانی بحث اور کمیٹی کارروائی مکمل ہوں گے۔”
اسحاق ڈار نے کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو اس معاملے پر اظہارِ خیال کرنے کا پورا حق حاصل ہے، کیونکہ “جن نکات کا انہوں نے ذکر کیا، ان پر واقعتاً بات چیت ہو چکی ہے۔”
انہوں نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو تجویز دی کہ ترمیم کو پہلے سینیٹ میں پیش کیا جائے کیونکہ یہ ایوان زیادہ پیشہ ورانہ اور پالیسی کی بنیاد پر غور کرتا ہے۔
افغانستان سے تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بدستور تناؤ کا شکار ہیں، حالانکہ پاکستان نے بارہا مصالحت کی کوشش کی۔ انہوں نے 2021 کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “ایک کپ چائے” کے نام پر طالبان جنگجوؤں کی واپسی اور خطرناک قیدیوں کی رہائی پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے انہیں چھ مرتبہ فون کیا، اور وہی ایک بات دہرائی گئی کہ “ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی نہ ہو۔”
واضح رہے کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے پاس 233 نشستیں ہیں، جبکہ سینیٹ میں 61 ارکان کے ساتھ حکومت کو کم از کم تین اپوزیشن ووٹوں — ممکنہ طور پر جمعیت علمائے اسلام (ف) — کی حمایت درکار ہوگی۔


