وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے صرف اُن نکات پر عمل کرے گی جن پر اتحادی جماعتوں میں اتفاقِ رائے ہو چکا ہے، جبکہ متنازع امور، جیسے 18ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی، پر مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
جیونیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے بتایا کہ ترمیم کا مسودہ آج کابینہ کے سامنے پیش کیا جانا تھا مگر پیپلز پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی (CEC) کی حتمی رائے نہ آنے کے باعث اجلاس مؤخر کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا، “ہم نے بہتر سمجھا کہ پیپلز پارٹی کی رائے کا انتظار کیا جائے۔ ان کی تجاویز کے بعد مسودہ حتمی شکل دی جائے گا، کابینہ سے منظوری لی جائے گی، اور پھر سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔”
مشیر نے بتایا کہ پیپلز پارٹی 2005 سے آئینی عدالت کے قیام کے حق میں رہی ہے، اور یہ تجویز میثاقِ جمہوریت کا حصہ بھی ہے۔ “ان کا واحد مطالبہ مساوی صوبائی نمائندگی کا تھا، جسے مسلم لیگ (ن) نے تسلیم کر لیا ہے۔”
انہوں نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے خدشات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم اور آبادی جیسے شعبوں میں 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات کے توازن پر غور ضروری ہے۔ “وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی غیر متوازن تقسیم ایک حقیقت ہے، جسے باہمی مشاورت سے درست کرنا ہوگا،” انہوں نے کہا۔
رانا ثناءاللہ کے مطابق 27ویں ترمیم کے دیگر نکات جیسے بلدیاتی ادارے، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق، الیکشن کمیشن کے اختیارات، اور ججوں کے تبادلے جیسے معاملات پر بھی اختلافات موجود ہیں۔ “فیصلہ اتفاقِ رائے سے کیا جائے گا، اگر اتفاق نہ ہوا تو بات چیت جاری رہے گی،” انہوں نے واضح کیا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا کہ ترمیم پر سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورت مثبت ماحول میں جاری ہے اور کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں۔
تاہم، پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے ترمیمی عمل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں تبدیلی کا “مینڈیٹ اور اخلاقی جواز” نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 27ویں ترمیم وفاق اور صوبوں دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ 18ویں ترمیم صوبوں کے مکمل اتفاق سے منظور کی گئی تھی، جبکہ 26ویں ترمیم کا معاملہ اب بھی عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت ہے۔ “آزاد عدلیہ جمہوریت کی بنیاد ہے، اور پی ٹی آئی حکومت کی کسی آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کرے گی،” انہوں نے کہا۔
بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے نومبر میں کسی احتجاج کی کال نہیں دی گئی، اور چیئرمین عمران خان کی رہائی “قانونی طریقے سے ہوگی، کسی ڈیل کے ذریعے نہیں۔”


