نامور ماہرِ تعلیم، انسانی حقوق کی کارکن، شاعرہ اور محقق ڈاکٹر عارفہ سید زہرہ پیر کے روز لاہور میں 83 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ ان کی بھانجی امینہ کمال نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر عارفہ کی تدفین کل لاہور کے کیولری گراؤنڈ میں ان کے خاندانی قبرستان میں کی جائے گی، جبکہ نمازِ جنازہ کا وقت بعد میں بتایا جائے گا۔
صدر آصف علی زرداری نے ڈاکٹر عارفہ سید زہرہ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ اپنے تعزیتی پیغام میں صدر نے کہا کہ “ڈاکٹر عارفہ سید زہرہ کا انتقال پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی علم، تحقیق اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “اردو زبان و ادب کے فروغ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، اور وہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک روشن مثال بنیں گی۔” صدر زرداری نے مرحومہ کے اہلِ خانہ، شاگردوں اور علمی برادری سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر عارفہ سید زہرہ اردو ادب اور زبان پر گہری دسترس رکھتی تھیں اور پچاس برس سے زائد عرصہ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ وہ 2006 میں نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (NCSW) کی چیئرپرسن بھی رہ چکی تھیں۔
لاہور میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر عارفہ نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی سے بی اے آنرز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ایم اے اردو، اور امریکہ کی یونیورسٹی آف ہوائی (یونیورسٹی آف ہوائی ایٹ مانوآ) سے ایشین اسٹڈیز میں ایم اے اور تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS)، نیشنل کالج آف آرٹس (NCA)، اور اسکول آف پبلک پالیسی سمیت متعدد اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ وہ فورمین کرسچن کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسر بھی رہیں، جہاں انہوں نے گزشتہ سال صحت کے مسائل کے باعث استعفیٰ دیا تھا۔
ڈاکٹر عارفہ سید زہرہ کی وفات پاکستان کی علمی، ادبی اور فکری دنیا کے لیے ایک عہد کے خاتمے کے مترادف ہے۔


