بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے پیر کے روز معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو سزائے موت سناتے ہوئے فیصلہ سنایا، جس میں انہیں گزشتہ سال طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے خلاف مہلک کریک ڈاؤن کا حکم دینے کا مجرم قرار دیا گیا۔ یہ فیصلہ فروری کے اوائل میں متوقع عام انتخابات سے کچھ ہفتے پہلے سامنے آیا ہے، جس سے ملک میں نئے ہنگاموں کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کو انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے ہی روک دیا گیا ہے، اور تازہ فیصلے کے بعد سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہونے کا امکان ہے۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے سخت سیکیورٹی میں فیصلہ سنایا، جبکہ حسینہ اپنی غیر حاضری میں مقدمے کا سامنا کر رہی تھیں کیونکہ وہ اگست 2024 میں بھارت فرار ہوگئی تھیں۔
78 سالہ سابق وزیر اعظم نے عدالت کے بار بار احکامات کے باوجود بھارت سے واپس آنے سے انکار کیا۔ مقدمہ اس الزام سے متعلق تھا کہ انہوں نے جولائی اور اگست 2024 میں احتجاجی تحریک کے دوران سیکورٹی فورسز کو براہ راست مہلک طاقت استعمال کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ بھارت میں روپوشی سے جاری ایک بیان میں حسینہ نے فیصلے کو جانبدار، سیاسی مقاصد پر مبنی اور غیر منتخب حکومت کے قائم کردہ “جعلی ٹریبونل” کا نتیجہ قرار دیا۔
فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔ تاہم حسینہ کے بیٹے اور مشیر سجیبو ازید واجد نے رائٹرز کو بتایا کہ وہ اپیل صرف اسی صورت میں کریں گے جب عوامی لیگ کی شمولیت کے ساتھ کوئی جمہوری حکومت قائم ہو۔
فیصلے کے بعد ڈھاکہ نے بھارت سے حسینہ اور سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ نئی دہلی معاہدے کے تحت ایسا کرنے کی پابند ہے۔
مقدمے کے دوران استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ انہیں شواہد ملے ہیں کہ حسینہ نے براہِ راست فورسز کو طلبہ تحریک کو کچلنے کے لیے مہلک طاقت استعمال کرنے کا حکم دیا۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 15 جولائی سے 5 اگست 2024 کے دوران ہونے والے احتجاج میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے — یہ 1971 کی جنگِ آزادی کے بعد سب سے بدترین تشدد تھا۔
حسینہ کی جانب سے مقرر کردہ سرکاری وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کی بریت کی اپیل کی۔ فیصلے سے پہلے حسینہ نے کہا تھا کہ انصاف کی توقع نہیں، کیونکہ نتیجہ “پہلے ہی طے” کیا جاچکا ہے۔ ملک بھر میں کشیدگی برقرار ہے، اور گزشتہ چند دنوں میں کم از کم 30 کریکر بم دھماکے اور 26 گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا گیا، تاہم کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔


