واشنگٹن (ایم این این): سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کہا کہ سعودی عرب ابراہام معاہدوں میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے، مگر اس کیلئے لازمی ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح اور قابلِ عمل راستہ فراہم کیا جائے۔
انہوں نے اوول آفس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “ہم ابراہام معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دو ریاستی حل کے لیے واضح راستے کی یقین دہانی بھی چاہیے۔” ولی عہد نے کہا کہ دونوں ممالک اس مقصد کے لیے مناسب حالات پیدا کرنے پر کام کریں گے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہیں سعودی عرب سے مثبت ردعمل ملا ہے۔
ملاقات میں دفاعی تعاون پر بھی بات ہوئی، جس میں امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو ایف 35 طیاروں کی فروخت شامل ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ یہ طیارے “تقریباً وہی” ہوں گے جو اس وقت اسرائیل کے پاس ہیں۔
دورے کے دوران ایم بی ایس نے ایک اہم معاشی اعلان بھی کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ نئی شراکت داریوں میں تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ان شراکت داریوں میں ٹیکنالوجی، دفاع، مصنوعی ذہانت اور صنعتی منصوبے شامل ہوں گے۔ ایک سینئر امریکی اہلکار کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جوہری تعاون، اے آئی ٹیکنالوجی اور بڑے کاروباری معاہدوں کی توقع کی جا رہی ہے۔
سات سال بعد ہونے والے اس دورے میں ولی عہد کو وائٹ ہاؤس میں خصوصی اعزاز کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سعودی عرب واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے اور 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد اپنی عالمی شبیہ بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق اس کارروائی کی منظوری ایم بی ایس نے دی تھی، تاہم انہوں نے اس کی تردید کی ہے۔
اگرچہ ٹرمپ سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاض فلسطینی ریاست کے واضح حل کے بغیر کوئی بڑا قدم اٹھانے کیلئے تیار نہیں — اور یہی سعودی پالیسی کی بنیادی شرط ہے۔


