
ویب ڈیسک (ایم این این); بھارتی زیرقبضہ کشمیر میں اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (SIA) نے جمعرات کو خطے کی قدیم ترین انگلش نیوز ایجنسی کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ کارروائی اُن میڈیا اداروں کے خلاف جاری مہم کا حصہ ہے جن پر “علیحدگی پسند بیانیہ” پھیلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
ادارے کے ایڈیٹرز پربودھ جمول اور انورا دھا بھاسن نے ایک بیان میں اس چھاپے کو “ہمیں خاموش کرانے کی ایک اور کوشش” قرار دیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ایس آئی اے نے اس چھاپے سے قبل ایک ایف آئی آر درج کی، جس میں اخبار پر “ملک دشمن سرگرمیوں” اور ریاست کے خلاف “نفرت پیدا کرنے” کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ایف آئی آر میں ایسی “مشکوک سرگرمیوں اور پیغامات” کا ذکر ہے جو مبینہ طور پر “بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ” سمجھے گئے۔
چھاپے کے دوران ایس آئی اے اہلکاروں نے دستاویزات، ڈیجیٹل آلات اور دیگر مواد کی تلاشی لی۔ کارروائی صبح 6 بجے اس وقت شروع ہوئی جب ادارے کے منیجر سنجیو کرن کو گھر سے بلا کر دفتر کھلوایا گیا۔
انڈین ایکسپریس نے حکام کے حوالے سے بتایا کہ ایس آئی اے انورادھا بھاسن سے بھی پوچھ گچھ کر سکتی ہے۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اُن نیٹ ورکس کے خلاف جاری ہے جن پر “علیحدگی پسند یا غیرقانونی پروپیگنڈا” پھیلانے کا شبہ ہے اور “کسی پلیٹ فارم — چاہے میڈیا ہو یا کوئی اور — کو ملک دشمن مواد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔”
ایڈیٹرز: الزامات بے بنیاد، ہمیں خاموش کرنے کی کوشش
کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹرز نے کہا کہ ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات “بے بنیاد” ہیں اور حکومت کو یہ “ہراسانی فوراً بند کرنی چاہیے۔”
انہوں نے زور دیا کہ “حکومت پر تنقید کرنا ریاست دشمنی نہیں بلکہ جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔”
ایڈیٹرز کا کہنا تھا کہ اُنہیں اُن کے صحافتی کام کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
“جب اہم آوازیں کم ہوتی جا رہی ہیں، ہم اُن چند آزاد اداروں میں شامل ہیں جو طاقت کے سامنے سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں،” انہوں نے کہا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ الزامات “ڈرانے، بدنام کرنے اور آخرکار خاموش کرانے کی کوشش” ہیں، مگر “ہم خاموش نہیں ہوں گے۔”
ایڈیٹرز نے کہا کہ ریاست دفتر پر چھاپہ تو مار سکتی ہے “لیکن ہماری سچائی کے عزم پر چھاپہ نہیں مار سکتی۔”
انہوں نے یاد دلایا کہ 2020 میں ادارے کا دفتر “بغیر کسی قانونی کارروائی کے” سیل کر دیا گیا تھا، اور 2021–22 میں مسلسل دباؤ کے باعث پرنٹ ایڈیشن بند کرنا پڑا، تاہم ادارہ ڈیجیٹل طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
سی پی جے کا شدید اظہارِ تشویش
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) نے چھاپے کو “انتہائی تشویشناک” قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ضبط شدہ سامان واپس کیا جائے اور کشمیر ٹائمز کے عملے کو اُن کے صحافتی کام پر سزا نہ دی جائے۔
سی پی جے کے ایشیا پیسیفک پروگرام کوآرڈینیٹر کنال مجمدار نے کہا کہ یہ کارروائی کشمیر میں میڈیا پر بڑھتے دباؤ کو مزید واضح کرتی ہے، اور حکومت کو اس کی قانونی بنیاد شفاف طریقے سے بتانی چاہیے۔
بھاسن نے سی پی جے کو بتایا کہ کشمیر ٹائمز کا جموں دفتر 2022 سے مالی مشکلات کے باعث بند ہے اور وہاں صرف پرانا سامان اور آرکائیوز موجود ہیں۔
بھارتی زیرقبضہ کشمیر میں میڈیا ہمیشہ سخت ریاستی کنٹرول کے تحت رہا ہے، جبکہ نریندر مودی کے دور میں بھارت میں مجموعی طور پر صحافتی آزادی مزید محدود ہوئی ہے۔
2020 میں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی فہرست میں بھارت 142ویں نمبر پر تھا — افغانستان اور زمبابوے سے بھی نیچے۔

