آئی ایم ایف کا انتباہ: بدعنوانی اور کمزور ادارے معاشی بحالی میں بڑی رکاوٹ

0
72

اسلام آباد (ایم این این)؛ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی گورننس اور کرپشن ڈائیگنوسٹک اسیسمنٹ نے خبردار کیا ہے کہ بدعنوانی کے دیرینہ مسائل، ادارہ جاتی کمزوریاں اور ساختی نقائص اب بھی پاکستان کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، حالانکہ توسیعی فنڈ فیسلٹی کے تحت حالیہ اقدامات سے استحکام اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔

آئی ایم ایف نے اس رپورٹ کی اشاعت کو آئندہ ماہ سات ارب ڈالر کے پروگرام کے تحت ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی قسط کی منظوری کے لیے لازمی شرط قرار دیا ہے۔ حکومت کی درخواست پر جنوری 2025 میں یہ جائزہ شروع ہوا، جس میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مشترکہ ٹیم نے آٹھ ماہ تک کام کرتے ہوئے بدعنوانی کے خدشات، گورننس کی کمزوریاں اور ترجیحی اصلاحات کی نشاندہی کی۔

رپورٹ میں وفاقی سطح کے مالی نظم و ضبط، مارکیٹ کے ضوابط، مالیاتی شعبے کی نگرانی، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام اور قانون کی حکمرانی کے شعبوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں عوامی مالیاتی وسائل، خریداری، ٹیکس پالیسی، سرکاری اداروں کی نگرانی اور عدالتی نظام سے متعلق خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جبکہ انسداد بدعنوانی کا موجودہ فریم ورک بھی زیرِ غور آیا ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق توسیعی فنڈ فیسلٹی کے تحت حاصل ہونے والا استحکام قابلِ ذکر ہے، جس میں مالی سال 25 کی پہلی ششماہی میں دو فیصد پرائمری سرپلس، اپریل میں 0.3 فیصد کی تاریخی کم ترین مہنگائی اور زرمبادلہ کے ذخائر کا 10.3 ارب ڈالر تک بڑھ جانا شامل ہے۔ تاہم ادارہ جاتی اور ساختی مسائل بدستور موجود ہیں، جن میں کم سرمایہ کاری، حکومتی مداخلت، معاشی بگاڑ اور بار بار پیدا ہونے والے مالیاتی دباؤ شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدعنوانی پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے مستقل چیلنج بنی ہوئی ہے، جہاں عوام بنیادی خدمات کے لیے بھی بار بار ادائیگیاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جبکہ بااثر طبقات پالیسیوں پر اثرانداز ہو کر قومی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ پی ٹی آئی دور میں چینی برآمدات کی اجازت کو ایسے ہی فیصلے کی مثال قرار دیا گیا ہے۔

جائزے میں بجٹ سازی اور اخراجات کی شفافیت، خریداری کے نظام، سرکاری اداروں کی کارکردگی اور ٹیکس نظام میں سنگین خامیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پیچیدہ ٹیکس نظام اور کمزور نگرانی بدعنوانی کے خطرات کو بڑھاتے ہیں، جبکہ مختلف ریگولیٹری اداروں کے اوورلیپنگ قوانین کاروبار کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

عدالتی شعبے میں پرانے قوانین، کیسوں کا بیک لاگ اور شفافیت سے متعلق سوالات معاہدوں کے نفاذ اور املاک کے تحفظ کو کمزور کرتے ہیں۔ احتسابی اداروں کے درمیان رابطے کی کمی اور ان کے اختیارات میں محدودیت بدعنوانی کے خطرات کو مزید بڑھاتی ہے۔ اگرچہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے میں اصلاحات معاون ثابت ہوئیں، مگر منی لانڈرنگ کے مقدمات میں سزا کا عمل سست ہے۔

آئی ایم ایف نے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری طور پر شروع کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی معاہدوں میں خصوصی مراعات کا خاتمہ، ایک سال کے اندر تمام سرکاری خریداری کو ای-گورننس پر منتقل کرنا، پارلیمانی نگرانی کو مضبوط بنانا اور پالیسی سازی میں شفافیت بڑھانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ انسداد بدعنوانی کے اداروں اور قانون نافذ کرنے والے میکانزم کو موثر بنانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

فراہم کردہ سفارشات کے مطابق اگر پاکستان ان اصلاحات پر عمل کرے تو اگلے پانچ برسوں میں مجموعی قومی پیداوار میں پانچ سے ساڑھے چھ فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں مرکزی بینک کی خودمختاری جیسے مشکل اصلاحات کے ذریعے اپنی صلاحیت ثابت کی ہے، اور تجویز کردہ اقدامات جاری حکومتی اصلاحاتی ایجنڈے کو مضبوط بنانے میں مدد دیں گے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں