اسلام آباد کانفرنس میں ایتھوپیا کا گرین لیکیسی ماڈل پاکستان سمیت دنیا کیلئے مثال قرار

0
48

اسلام آباد میں بدھ کے روز ماہرین ماحولیات، سفارتکاروں اور تعلیمی شخصیات نے موسمیاتی تعاون کو بڑھانے کے لیے اجلاس کیا، جس کا مقصد ایتھوپیا اور پاکستان کے درمیان ماحولیاتی شراکت کے نئے راستے تلاش کرنا تھا۔ کانفرنس میں ایتھوپیا کے بڑے پیمانے پر شجر کاری پروگرام کو خصوصی طور پر سراہا گیا۔

"گرین ڈائیلاگ” کے عنوان سے ہونے والا یہ اجلاس ایتھوپین ایمبیسی اسلام آباد اور بحریہ یونیورسٹی کے اشتراک سے منعقد ہوا، جس میں ایتھوپیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر ابی احمد کے گرین لیکیسی انیشیٹو کے نتائج اور پاکستان کے لیے ممکنہ پالیسی ماڈلز پر غور کیا گیا۔

افتتاحی خطاب میں چارج ڈی افیئرز چالاچیو ایشیٹی نے بتایا کہ اب تک ایتھوپیا میں 48 ارب سے زائد پودے لگائے جا چکے ہیں جن میں پھل دار اور کافی کے پودے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ زرعی بحالی، خوراک کے تحفظ اور زمین کے کٹاؤ کو روکنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ بھی ایسے طویل المدتی موسمیاتی اقدامات اختیار کرے تاکہ ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔

انہوں نے کانفرنس کے انعقاد کی کوششوں پر بحریہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود، ڈاکٹر محمد فہیم خان اور ڈاکٹر تحسین زہرا کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔

دوران اجلاس، rear admiral نعیم سرور نے کہا کہ انسانی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کا بے قابو استعمال ماحول کو نقصان پہنچا رہا ہے، تاہم مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ ٹیکنالوجی ماحول کی بحالی میں مددگار ہو سکتی ہے۔

چین کی چونگ چنگ رینیو ایبل انرجی سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل ما ڈنگ پنگ نے نوجوانوں کے لیے گرین انٹرپرینیورشپ اسٹارٹر کٹ پیش کی اور بتایا کہ چین کے کئی علاقوں میں ڈرون ٹیکنالوجی اور سولر انفراسٹرکچر نے زراعت اور کاروبار کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے۔ انہوں نے جنوبی ایشیا میں بھی ایسے ماڈلز اپنانے کی تجویز دی۔

نارووال یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق محمود نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی خطرات کے انتہائی نازک مرحلے میں ہے، جہاں ہیٹ ویوز، سیلاب اور حیاتیاتی کمی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے حکومتی سطح پر ردعمل کے بجائے پیشگی حکمت عملی، مساوی ترقی اور کلائمٹ فنانسنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔

ایس ڈی پی آئی اور بحریہ یونیورسٹی سینٹر فار ریسرچ ایکسی لینس کے ماہرین نے بھی تجاویز پیش کیں۔

کانفرنس اس اتفاق پر اختتام پذیر ہوئی کہ موسمیاتی بہتری سرحدوں سے بالاتر مسئلہ ہے، جس کیلئے حکومتوں، جامعات اور مقامی برادریوں کے مشترکہ اقدامات ناگزیر ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں