اسلام آباد (MNN)- دفتر خارجہ نے جمعہ کو واضح کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ جنگ بندی روایتی نوعیت کی نہیں بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کوئی دہشتگرد کارروائی ہوتی ہے یا نہیں۔
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات گزشتہ چار برس میں اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ 11 اکتوبر سے دونوں ممالک کی سرحدی گزرگاہیں بند ہیں جبکہ سرحدی جھڑپوں اور پاکستانی فضائی کارروائیوں کے باعث تجارت معطل ہے، جن میں دونوں جانب جانی نقصان بھی ہوا۔ یہ 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اب تک کا سب سے شدید تناؤ ہے۔
ترکی اور قطر نے کشیدگی کم کرانے کیلئے ثالثی کی کوششیں کیں۔ دوحا میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے مرحلے میں عارضی جنگ بندی ہوئی، دوسرے مرحلے میں نگرانی کے طریقہ کار پر اصولی اتفاق ہوا، تاہم تیسرا دور کسی حتمی نتیجے پر ختم نہ ہو سکا۔ تازہ صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب افغانستان نے حالیہ دنوں میں مبینہ پاکستانی فضائی حملوں کا الزام لگایا، جس کی اسلام آباد نے تردید کی جبکہ افغان فریق نے جوابی کارروائی کی دھمکی بھی دی۔
ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں جنگ بندی سے متعلق سوال پر ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرا بی کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان و افغانستان کے درمیان جنگ بندی دو ریاستوں کے درمیان روایتی جنگ بندی نہیں، بلکہ اس کا مقصد افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی، فدایانِ افغانستان و دیگر گروہوں کی دہشتگرد سرگرمیوں کو روکنا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود پاکستان میں بڑی دہشتگردی کی وارداتیں ہوئی ہیں، اس لیے ’’اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنگ بندی برقرار نہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد سمیت مختلف مقامات پر افغان شہریوں کی شمولیت سے ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد جنگ بندی کے موثر ہونے کی امید کم ہے۔ ’’یہ جنگ بندی صرف اس شرط پر تھی کہ دہشتگرد حملے نہیں ہوں گے۔ اگر حملے جاری ہیں تو اسے برقرار کہنا مشکل ہے۔‘‘
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز مکمل چوکنا ہیں اور کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔ ’’ہم درپیش چیلنجز کا بھرپور جواب دیں گے۔‘‘
حالیہ کشیدگی سے قبل بھی حکومت نے جنوبی وزیرستان کے کیڈٹ کالج وانہ پر حملے میں ملوث تمام دہشتگردوں کو افغان شہری قرار دیا تھا۔ حملہ آور مرکزی گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے، تاہم بروقت کارروائی نے بڑے سانحے کو ٹال دیا۔ اسی طرح اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس کے باہر خودکش دھماکے میں 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہوئے، جس کے بارے میں وزراء نے بتایا کہ حملہ آور پاکستانی شہری نہیں تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر دفاع خواجہ آصف دونوں نے افغانستان کی جانب سے دہشتگردی کی حمایت کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان پر حملوں کی صورت میں دہشتگرد ٹھکانوں کے خلاف کارروائی خارج از امکان نہیں۔


