واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب دو نیشنل گارڈ اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے میں ایک فوجی خاتون کی موت کے بعد افغان نژاد ملزم کے خلاف الزامات کو قتلِ عمد میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
اس اقدام کے ساتھ ہی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تیسرے دنیا کے ممالک سے امیگریشن معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، جس نے سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔
29 سالہ رحمان اللہ لکانوال کو امریکی میڈیا سی آئی اے کی حمایت یافتہ زیرو یونٹس کا سابق رکن قرار دے رہا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی کی پراسیکیوٹر جینین پیرو نے بتایا کہ الزامات کو حملے سے بڑھا کر قتلِ عمد کر دیا گیا ہے، کیونکہ یہ منصوبہ بندی شدہ حملہ تھا جس میں محافظوں پر گھات لگا کر فائرنگ کی گئی۔ اس سے ایک روز قبل اٹارنی جنرل پام بانڈی نے بھی کہا تھا کہ وہ ملزم کے خلاف سزائے موت کیلئے جائیں گی۔
واقعہ بدھ کے روز تھینکس گیونگ سے ایک دن پہلے پیش آیا جب لکانوال نے .357 ریوالور سے گشت پر مامور گارڈز پر فائرنگ کی۔ 20 سالہ قومی محافظ سارہ بیک اسٹروم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں، جب کہ 24 سالہ اینڈریو وولف تشویشناک حالت میں ہیں۔
یہ واقعہ داخلی سیکیورٹی، امیگریشن پالیسی اور افغانستان جنگ کے باقی رہ جانے والے اثرات کو ایک بار پھر مرکزِ بحث بنا چکا ہے۔
ٹرمپ کا ‘تھرڈ ورلڈ’ ممالک سے امیگریشن مکمل روکنے کا اعلان
حملے کے بعد ٹرمپ نے اعلان کیا کہ تمام تیسری دنیا کے ممالک سے امیگریشن کو مستقل طور پر روکا جائے گا۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے ان ممالک کی فہرست میں افغانستان، ایران، کیوبا، ہیٹی اور میانمار سمیت 19 ریاستوں کی نشاندہی کی۔
امریکی اعداد و شمار کے مطابق کل گرین کارڈ ہولڈرز میں 12 فیصد یعنی 1.6 ملین سے زائد افراد انہی ممالک میں پیدا ہوئے تھے۔ افغانستان کے 116,000 سے زائد شہری گرین کارڈ رکھتے ہیں — اور اب اس کی امیگریشن پروسیسنگ مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔
سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے تصدیق کی کہ لکانوال طالبان کے خلاف امریکی فورسز کے ساتھ کام کرتے رہے اور 2021 انخلاء کے بعد امریکا لائے گئے تھے۔ بعدازاں وہ اپنے اہلِخانہ کے ساتھ ریاستِ واشنگٹن میں مقیم تھے اور واقعے سے قبل دارالحکومت پہنچے۔
تاہم افغان ایویک نے حکومتی مؤقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انخلا شدہ افغانیوں نے امریکی تاریخ کی سخت ترین سیکیورٹی اسکریننگز میں سے ایک کا سامنا کیا تھا۔


