ویب ڈیسک (ایم این این) – وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کے آپشن پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، اور اس کی بنیادی وجہ صوبے میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی اور گورننس مسائل ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اور ان کی ٹیم صورتحال سنبھالنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ان کے مطابق نہ صوبے کی جانب سے مرکز کے ساتھ کوئی مؤثر رابطہ موجود ہے اور نہ ہی ضروری معاملات پر کارروائی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گورنر راج آئین کے تحت ایک ایسا قدم ہے جو صرف انتہائی ناگزیر حالات میں اٹھایا جاتا ہے اور موجودہ صورتحال اس اقدام کی طرف اشارہ کرتی ہے تاکہ انتظامی ڈھانچے کی موجودگی یقینی بنائی جا سکے۔
سوال پر کہ آیا فیصلہ ہو چکا ہے یا نہیں، عقیل ملک نے وضاحت کی کہ آئین کے آرٹیکل 232 اور 234 کے تحت صدر وزیر اعظم کی تجویز پر کارروائی کر سکتے ہیں، اور حکومت اس آپشن پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کی سفارش صرف ایک راستہ ہے، صدر خود بھی اقدام اٹھا سکتے ہیں، البتہ بعد میں مشترکہ اجلاس سے منظوری ضروری ہوگی۔
ان کے مطابق گورنر راج پہلے مرحلے میں دو ماہ کے لیے نافذ کیا جا سکتا ہے جس میں ضرورت پڑنے پر توسیع ممکن ہے۔ گورنر کو ہٹانے یا تبدیل کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ معاملہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
دوسری جانب گورنر فیصل کریم کندی نے ممکنہ برطرفی سے متعلق رپورٹس پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پارٹی کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ اسے قبول کریں گے۔ میڈیا میں ناموں کی گردش پر انہوں نے کہا کہ اگر میڈیا ہی گورنر مقرر کرے تو یہ تشویش کا باعث ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور گورنر کے درمیان حالیہ ملاقات میں صوبائی انتظامی معاملات سمیت گورنر راج کا موضوع بھی زیر بحث آیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے گورنر پر اعتماد کا اظہار کیا اور بتایا کہ انہیں ہٹانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ملاقات میں وزیراعلیٰ کے سخت موقف، اداروں سے کشیدگی اور این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کے حصے سے متعلق معاملات بھی اٹھائے گئے۔


