ویب ڈیسک (ایم این این) – دنیا بھر میں حکومتیں اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے نظاموں، بالخصوص چیٹ جی پی ٹی اور گوگل جیمینائی پر تیزی سے انحصار بڑھا رہی ہیں، اور اربوں ڈالر ڈیٹا سینٹرز اور جدید AI ماڈلز کی تیاری میں لگا رہی ہیں۔ مگر AI کی بڑھتی ہوئی قدر اور بے تحاشہ سرمایہ کاری نے مستقبل میں تکنیکی ’’بلبلا‘‘ بننے کے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
آذر بائیجان کی حضار یونیورسٹی سے وابستہ محقق گلوڑیا شکورتی اوزدمیر نے انادولو سے گفتگو میں کہا کہ ابتدا میں مصنوعی ذہانت کی تحقیق میں حکومتوں اور جامعات کا کردار نمایاں تھا، اب نجی شعبہ اس دوڑ کی قیادت کر رہا ہے۔ ان کے مطابق AI اب عسکری، معاشی اور جیوپولیٹیکل مقابلے کا ذریعہ بن چکی ہے — کمپنیاں تجارتی سبقت کے لیے سرمایہ لگا رہی ہیں جبکہ ممالک مقابلے اور سکیورٹی میں پیچھے نہ رہنے کیلئے مسلسل فنڈنگ بڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی تاریخ میں کئی بار توقعات حقیقت سے بڑھ گئیں، جس طرح ’’میٹا ورس‘‘ کا تصور جو مکمل طور پر تیار نہ ہونے کے باعث ماند پڑ گیا۔ ان کے بقول AI میں بھی بلبلا بننے کا امکان موجود ہے، لیکن اگر ایسا ہوا تو بھی نظام مکمل طور پر نہیں ڈھے گا، صرف رفتار کم ہوگی۔
AI ماہر اور آئی ٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آگاہ توغرل کوروجو نے کہا کہ AI پر بلبلے کی بحث کی بنیادی وجوہات ناقص ڈیٹا، اخراجات، خودکار غلط نتائج اور تکنیکی ناپختگی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ غیر منظم یا ادھورا ڈیٹا AI کو پُراعتماد مگر غلط جوابات دینے پر مجبور کر سکتا ہے، جو صحت، مالیات اور قانون جیسے حساس شعبوں میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
کوروجو نے کہا کہ طویل المدتی مستقبل میں AI بجلی کی طرح عام اور لازمی بن جائے گی۔ توانائی و لاگت کے دباؤ کے پیش نظر اب صنعت چھوٹے مگر مخصوص AI ماڈلز کی طرف بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ AI نے صنعتوں میں پیداواریت میں اضافہ کیا ہے — وہ تجزیاتی کام جو ماہرین گھنٹوں میں کرتے تھے، اب چند منٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے، جس سے ماہرین کو تخلیقی اور اسٹریٹجک امور پر وقت ملتا ہے۔ روبوٹک لائنوں میں AI مائیکرون سطح کی خامیاں شناخت کر کے کوالٹی بہتر اور لاگت کم کر رہی ہے، جبکہ خطرناک، بار بار دہرائے جانے والے اور نازک کام AI روبوٹس کے سپرد کیے جارہے ہیں، جس سے حادثات اور رکاوٹوں میں کمی آرہی ہے۔ ڈیٹا پر مبنی فیصلے منیجمنٹ کو اندازے کے بجائے ٹھوس شواہد فراہم کرتے ہیں۔


