اسلام آباد (ایم این این) – وفاقی حکومت نے پیر کے روز واضح کیا کہ کسی صوبے میں گورنر راج نافذ کرنا آئین کے تحت جائز اور موجود اختیار ہے، جبکہ دوسری طرف خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ اگر طاقت ہے تو وفاق یہ قدم اٹھا کر دکھائے۔
ذرائع کے مطابق وفاق صوبے میں بڑھتی سیکیورٹی تشویش اور گورننس مسائل کے باعث سنجیدگی سے گورنر راج پر غور کر رہا ہے۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ گورنر راج کوئی مارشل لا نہیں بلکہ آئینی طریقہ کار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حالات تقاضا کریں تو اس کا نفاذ آئین کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ اختیار ہر حکومت کے پاس موجود ہے اور عموماً کمزور طرز حکمرانی میں ایسے مباحث سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا: دیکھتے ہیں حالات کس رخ جاتے ہیں۔
ادھر وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے وزیراعلیٰ آفریدی کو تناؤ بڑھانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وفاق نے دہشت گردی اور دیگر معاملات پر ہمیشہ صوبائی حکومت کو اعتماد میں رکھا ہے، اس لیے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے بچا جائے۔
گزشتہ ہفتے گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں صوبے کی صورتحال اور ممکنہ گورنر راج پر تبادلہ خیال کیا، جس میں وفاقی وزرا انجینئر امیر مقام اور رانا مبشر اقبال بھی شریک تھے۔
وزیراعلیٰ آفریدی کا چیلنج
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے دو ٹوک کہا کہ انہیں گورنر راج سے کوئی خوف نہیں۔ "ہمت ہے تو لگا کر دکھائیں”، انہوں نے پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
انہوں نے مرکز پر الزامات لگائے کہ صوبے کو مالی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور بتایا کہ وفاق کے ذمے خیبر پختونخوا کے 3,000 ارب روپے بقایا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رقم مل جائے تو صوبہ نمایاں ترقی دکھا سکتا ہے لیکن ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔
آفریدی نے آئی ایم ایف رپورٹ میں سامنے آنے والی کرپشن کی نشاندہی کرتے ہوئے وفاق کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے گورنر راج کی تجویز کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سیاسی ردعمل برداشت نہیں کر سکے گی۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر علی گوہر نے بھی امکان کو مسترد کر دیا اور کہا کہ نہ حالات اس کے متقاضی ہیں نہ ایسا ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ دہشت گردی کے چیلنجز سے نمٹ رہا ہے اور حکومت کو کام جاری رکھنے دیا جائے۔
عمران خان سے ملاقاتوں کی بندش کے حوالے سے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ تقریباً ایک ماہ گزر چکا ہے اور ان تک رسائی نہیں دی جا رہی، جو کہ غلط ہے۔ “انہوں نے پارلیمانی مینڈیٹ لیا ہوا ہے، اس لیے ملاقاتوں کی اجازت ملنی چاہیے تاکہ معاملات بہتر ہوں۔”


